تحریر: محمد رضا سید
اسرائیل کی طاقت کا غرور ریزہ ریزہ ہوگیا، حماس کے خلاف بھیانک جارحیت، فلسطینیوں کی نسل کشی غزہ کی تباہی اور بربادی کے باوجود تل ابیب حکومت اُس وقت نہایت مجبور اور بے بس دکھائی دی جب وہ 7 اکتوبر 2023ء کی صبح طوفان الاقصیٰ آپریشن کے دوران گرفتار کئے گئے افراد کو رہا کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی اور بلآخر حماس کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھ کر جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں تین اسرائیلی یرغمالیوں ایملی دماری، ڈورون اسٹین بریچر اور رومی گونن کو رہا، کراسکی جس کے بدلے تل ابیب کو نوے فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا پڑا، قیدیوں کا دوسرا تبادلہ رواں ہفتے کے اختتام پر ہوگا، حماس سے رہائی حاصل کرنے والی ایملی کی والدہ مینڈی ڈاماری نے کہا کہ ان کی بیٹی کی صحت توقع سے زیادہ بہتر ہے، یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ایملی نے رہا ہونے کے بعد کہا کہ وہ دنیا کی سب سے خوش نصیب لڑکی ہے جسے اپنی زندگی واپس مل گئی ہے، ایملی نے کم و بیش 447 دن حماس کی مہمان نوازی میں گزارا، اُن کی دیکھ بھال کا اندازہ اُن کی بہتر صحت سے لگایا جاسکتا ہے حالانکہ وہ گرفتاری سے قبل زخمی تھیں، حماس کے کارکنوں نے اُن کا علاج کروایا وہ مطمئن چہرے کیساتھ اپنی والدہ سے گلے ملیں تو ایسا لگا کہ وہ کسی سیاحتی دورے سے واپس آئیں ہیں جبکہ اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والے قیدیوں کی حالت زار کا اندازہ دنیا بھر کے میڈیا میں شائع ہونے والی تصاویر سے لگایا جاسکتا ہے، اسرائیل کی فوجی جیلوں سے رہائی پانے والے 12 سال کے کم عمر لڑکے ہوں یا 62 سالہ پوپولر فرنٹ کی خاتون رہنما کوئی قیدی جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہے، فلسطینی قیدی بے رحم اسرائیلی فوج کی قید سے رہا ہوئے تھے جن کی انسانی ضرورتوں کا بھی خیال نہیں رکھا گیا تھا، انسانی رویوں کا یہ فرق واضح کرتا ہے کہ نسل پرست غاصب حکمرانوں کی نفسیات کو کھول کر بیان کردیتا ہے، ہمیں یہ منظر ہم مقبوضہ کشمیر میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
حماس نے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی خوشی کے اظہار دلیل ہے کہ وہ مزاحمت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیلی مظالم کے باوجود آزادی کی جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں، ایک طرف دنیا نے 3 اسرائیلی خواتین قیدیوں کی مکمل ذہنی اور جسمانی صحت کیساتھ رہائی کا منظر دیکھا جبکہ دوسری طرف اسرائیلی قید سے رہائی حاصل کرنے والے فلسطینی مرد اور خواتین قیدیوں کی حالت زار نے اسرائیل کے انسانی رویوں میں نسل پرستی کے غلبےکو بے نقاب کردیا ہے، فلسطینی قیدی جسمانی اور ذہنی کمزوریوں کا شکار ہیں اور رہائی کے وقت فلسطینی قیدیوں پر تھکن کے آثار واضح نظر آرہے تھے، یہ مزاحمت کے اقدار اور قبضے کی فاشزم کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے، جنگ بندی لاگو ہونے کے بعد غزہ کی پٹی میں 50 امدادی ٹرک اور ایندھن کے 10 سے زیادہ ٹرک کریم شلوم کراسنگ سے داخل ہوئے جبکہ غزہ میں جنگ بندی کے فریم ورک میں لڑائی ختم ہو چکی ہے لیکن جنگ بندی معاہدہ اسرائیلی رہنماؤں کی بے رحم سیاست کی زد میں موجود ہے، اسرائیلی قیادت اور شدت پسند یہودی کیلئے بہت مشکل مرحلہ ہے کہ وہ غزہ کو ایک بار پھر حماس کے کنٹرول میں جاتا ہوا دیکھیں، غزہ پر اسرائیلیوں کی للچائی ہوئی نظریں کوئی پوشیدہ حقیقت نہیں ہے، اکتوبر 2023ء کے وسط میں اسرائیل سے آوازیں اُٹھنا شروع ہوچکیں تھیں کہ فلسطینیوں کو صحرائے سینا کی طرف دھکیل کر غزہ کو اسرائیلی تسلط میں لیکر یہاں یہودیوں کو بسایا جائے مگر مصر نے بائیڈن کی امریکی انتظامیہ کے دباؤ کے باوجود اسرائیلی خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا جوکہ مصر کا قابل ستائش فیصلہ تھا، جنگ بندی کو برقرار رکھنا اسرائیلی قیادت کا کڑا امتحان ہوگا، شرانگیزی پر مبنی اسرائیلی قیادت کے بیانات اِن کے مذموم عزائم کی نشاندہی کررہی ہیں، یمن کے حوثیوں نے کہا کہ وہ معاہدے کے بعد بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملہ کرنا بند کر دیں گے، سوائے ان جہازوں کے جن پر اسرائیل کا جھنڈا لگا ہو یا کسی وہ بحری جہاز کسی یہودی کی ملکیت ہو تاکہ اسرائیل کو غزہ جنگ بندی پر قائم رکھنے کیلئے موثر دباؤ موجود رہے، جنگ بندی کے بعد یمنی حوثیوں کے رہنما عبدالمالک بدرالدین الحوثی نے پیر کے روز غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے بعد پہلی بار عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ لڑنے کیلئے یمنی اب بھی متحرک ہیں اور جنگ بندی پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اسرائیلی قیادت نے جنگ بندی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوئی منفی راستہ اختیار کیا تو یمنی مجاہدین کو غزہ تک پہنچنے تک کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔
، اسرائیلی انٹیلی جنس نے مغربی کنارے میں حماس کے خطرات کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ جنگ بندی معاہدے کے فریم ورک میں شامل نہیں ہے، اس قسم کی ایدوائزری جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کی منفی عزائم آشکار نظر آتے ہیں، ایسے میں خطے کی مزاحمتی قوتوں کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اس جنگ بندی کا بجا طور پر کریڈٹ لے رہے ہیں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ خطہ ایک بار پھر جنگ کے شعلوں ست متاثر نہ ہو، اسرائیلی عسکری تنظیم آئی ڈی ایف نے غزہ سے 90ویں بٹالین کو واپس بلالیا ہے لیکن وہ مغربی کنارے میں فوجی مشقیں کررہی ہے،؎ جو اسرائیلی قیادت کی نیت کے فتور کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے، غزہ کی حالیہ جنگ بندی فلسطینی مسئلے کا حل نہیں ہے، عالمی برادری اور خطے کے ملکوں کو فلسطینیوں کے آزاد وطن کا راستہ ہموار کرنا ہوگا تاکہ مشرق وسطیٰ میں دائمی امن کا راستہ ہموار ہوسکے، امریکہ سمیت عالمی برادری اپنے عزم کی سچائی کیلئے پہلے مرحلے میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تعمیر کی گئی یہودی بستیوں جسے عالمی برادری غیر قانونی قرار دے چکی ہے ختم کرانے کیلئے حقیقی اقدامات کا آغاز شروع کرئے ورنہ غزہ کی حالیہ جنگ بندی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی اور خطے میں پھر جنگ کے شعلوں بھڑک جائیں گے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی حلف اُٹھانے کے بعد اپنی صدارت کے دوسرے دور کی پہلی تقریر میں غزہ جنگ بندی کا کریڈٹ اپنے آپ کو دیا جوکہ واقعی ایک حقیقت ہے، بائیڈن انتظامیہ نے جنگ روکنے کے بجائے اسرائیل کی مالی اور فوجی مدد کرکے اُسے اس قابل بنایا کہ وہ متعدد محاذوں پر ایک ساتھ جنگ لڑسکے، ٹرمپ نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ وہ جنگوں سے بچیں گے، شاید ایسا ہی ہو یہ خود امریکی عوام کے مفاد میں ہے۔