تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے چھ ججوں کی جانب سے انصاف کے عمل میں خفیہ اداروں کی مداخلت پرچیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کانسل کے اراکین کو لکھے خط نے ملک کو شدید ترین بحرانی کیفیت کا شکار کردیا ہے، عدلیہ پر خفیہ داروں کے اثر و رسوخ اور دباؤ کو استعمال کرنے کے دوران ہونے والی ضمانتوں، ملزمان کی برعیت اور سزاؤں کی اخلاقی حیثیت کے بارے میں معاشرے کے مختلف طبقات کی طرف سےسوال اُٹھائےجارہیں ہیں جو حق بجانب ہیں، اسی اثناء میں پاکستان بار کونسل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز ججز کے الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا، پاکستان بار کونسل نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے سپریم کورٹ کے تین سینئرججز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے، اعلامیے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے الزامات کی تحقیقات لازمی ہیں، عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل ایسے الزامات کی تحقیقات کا فورم نہیں، الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس پاکستان کو کمیٹی تشکیل دینی چاہیئے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی گئی ہے جس میں سپریم کورٹ سے بااختیار کمیشن تشکیل دیکر تحقیقات کرانے کی استدعا کی گئی ہے، میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا سپریم کورٹ کے ججز کو خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے ،کچھ ماہرین قانون اس اقدام کو انٹیلی جنس ادارے کی جانب سے جوابی وار سمجھ رہے ہیں جوعدالتی بحران کے دوران ایسی پیشرفت ہے جو بلاوجہ اس قضیے کو اختلاف کا سبب بنائے ، اس درخواست پر سنوائی یقیناً چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی صوابدیدی اختیار ہے، جو اس وقت کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں، ایک طرف عدلیہ کی عزت و وقار داؤ پر لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی ہے جو ملکی سلامتی کیلئے ناگزیر ہےاور اس پر سنگین الزامات لگے ہیں جو ملک کے نظام انصاف کو زیر سوال لا رہے ہیں۔
پاکستان میں اداروں کی مداخلت سے جو بحرانی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں عدالتی وقار کو کامیابی حاصل نہ ہوئی تو پاکستان شہریوں کا نظام انصاف سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور داد رسی کیلئے قانون سے ماوراء قوتیں معاشرے میں اپنے پنجے گاڑھ لیں گی، جس کا نتیجہ انارکی اور فساد نکلے گا، ججوں پر انٹیلی جنس ادارے کے دباؤ کا معاملہ طشت از بام ہوچکا ہے تو الزام کی زد میں آنے والی قوت تحمل سے کام لینا ہوگا یہی ملک کے بہترین مفاد میں ہے، خفیہ ادارے کے جو اہلکار ججوں کو دھمکانے میں ملوث رہے ہیں انہیں سروس سے برخاست کرکے اس آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے یہی اس بحران کے خاتمے کابہترین حل ہے ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے مسلسل جبر سہنے کے بعد اپنی آواز بلند کی ہے یہ کوئی مذموم منصوبہ کیسے ہوسکتا ہے، جس کسی نے بھی میاں داؤد ایڈوکیٹ کو متحرک کیا ہے وہ عدالتوں کی بے توقیری کے سوا کیا چاہتا ہے،اسلام آباد آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار نے قانون کو مذاق بنانے پر ایک ڈپٹی کمشنر کو سزا سنائی جس پر ابھی تک عمل نہیں ہوسکا کیونکہ اُسے بچانے والے زیادہ طاقتور اور پیسے والے ہیں، ریاست اس سزا پر عمل درآمد کراکے جمہور کے حق کا دفاع کریں۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور اُن کے بیٹوں سمیت اسحاق ڈار کو مقدمات سے جس طرح بری کیا گیا ہے ،وہ قانون کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے، پاکستانی عوام نےاپریل 2022ء کے بعد بہت کچھ دیکھا جب طاقتور اداروں اور دولتمندوں کا اتحاد ہوا تو قانون کو موم کی ناک بناکر موڑ دیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے محترم ججز نےپاکستان کے نظام انصاف کو بچانے کیلئے جو قدم اُٹھایا ہے وہ قابل تحسین ہی نہیں پاکستان میں پیدا ہونے والی نسلوں پر احسان ہے، اِن ججز نے نوازشریف اور اُن کے ساتھیوں سے متعلق عدالتی سلوک اورخلاصی پر مبنی فیصلوں کو بھی مشکوک بنادیا ہے جبکہ ملک میں قائم نظام ِ حکومت کو بے حیثیت کردیا ہے، اس وقت اصلاحِ احوال کیلئے ضروری ہے کہ انّا کا مسئلہ بنائے بغیر فیصلہ کیا جائے کہ ادارے اپنے قانونی حصّار سے باہر نہ نکلنے پائیں جو عوام کے اندر موجود غصّے کو بھی ٹھنڈا کردے گا ، پولیس کے ادارے کی تباہی کی وجہ مارشل لاء ہے ، جب ایک فوجی افسر یا اہلکار کے حکم کی پابندی پولیس پر لازمی قرار دی گئی ، آج یہ ادارہ اتنا زوال پذیر ہے کہ اکثر پولیس اہلکاروں کوانسان کہنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔
مئی 9 کے بعد پولیس کے ادارے نے جو ظلم وستم کی انتہا کی اس کے پیچھے بھی ایک طاقتور ریاستی ادارے کا ہاتھ تھا، یہ بیماری ہماری سیاست،معاشرت، سماج اور تہذیب کو کھا چکی ہے، طاقتور کو قانون کے نیچے نہیں لایا گیا تو پاکستان کی مشکلات کبھی کم نہیں ہونگی اور ملک بد سے بدترین روش پر چلتا رہے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے محترم ججز نے موقع دیا ہے کہ سپریم کورٹ ملک میں اچھی روایات کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کرئے، پرانی مثل ہے جب زخم ناسور بن جائے تو ایسے جسم سے جدا کردینا بہتر ہوتا ہے ہمیں اپنے نظام انصاف کو بچانا ہے جو کسی بھی ملک کے شہریوں کی آخری آس ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس عرفان سعادت نے جسٹس(ریٹائرڈ) سوکت صدیقی کو انصاف فراہم کرنے کیلئے جوقابلِ تحسین اور دباؤ سے بالاتر فیصلہ کیا ہےاُسی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی ہمت باندھی کہ وہ جبر کی صورتحال میں انصاف کے خاطر سپریم کورٹ سے رجوع کرکے ھدایت لیں، سپریم کورٹ کے اس بیج نےشوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئےسپریم جوڈیشل کونسل کی اس معاملے میں سفارشات اور وزیراعظم کی جانب سے صدر مملکت کو بھیجی گئی ایڈوائس پر عملدرآمد کو کالعدم قرار دیدیا،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے کی وجہ سے انھیں عہدے پر بحال نہیں کیا جا سکتا اس لیے انھیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے اور اس سلسلے میں انھیں تمام متعلقہ مراعات دی جائیں۔
1 تبصرہ
Pingback: Pak-Afghan forces clash forces clash.