تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ افغانستان سے صرف طالبان تحریک کی وہاں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے، پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف نے پشاور کا دورہ کیا، اس دوران خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی جس میں وفاقی وزیر داخلہ سمیت دیگر حکام بھی موجود تھے، ترجمان پاکستانی فوج کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی طالبان کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عملداری ہے، صوبے میں صرف انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائی کی جاتی ہے، آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ریاست ہے تو سیاست ہے، خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں رہیگا، سب کو بلا تفریق اور تعصب کے دہشت گردی کے خلاف یک جا ہوکر کھڑا ہونا ہوگا، جب متحد ہو کر چلیں گے تو صورت حال جلد بہتر ہو جائے گی، واضح رہے کہ خیبر پختوخواہ میں فوجی آپریشن کے خلاف عوامی مزاحمت کی بناء پر طالبان سے لڑائی میں پاکستانی فوج کو حالیہ مہینوں میں شدید جانی نقصان اُٹھانا پڑا ہے، پاکستان کی فضائیہ نے افغانستان کے اندر بھی پاکستانی طالبان ٹھکانوں پر حملے کئے جس نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے، جس کے جواب میں افغان طالبان کی کابل حکومت نے شدید ردعمل بھی ظاہر کیا اور بتایا کہ پاکستانی فضائیہ کے سنگین حملوں میں خواتین اور بچے بھی ہلاک ہوئے اور وہاں پاکستانی طالبان تحریک کا کوئی شدت پسند موجود نہیں تھا، افغان طالبان کے رہنما پاکستان پر الزام عائد کررہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے داعش کو سپورٹ کررہی ہے، اسی طرح کا الزام ایران بھی عائد کرتا اور بلوچستان میں داعش کے مبینہ اڈے پر حملہ بھی کرچکا ہے، جس کا پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا تھا، اگر اس الزام میں معمولی سی بھی صداقت ہے تو یہ پاکستانکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ایک اور خطرناک اقدام ہوگا جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں مزید اضافہ ہوگا، بلوچستان میں کالعدم طالبان تحریک کے بلوچ علیحدگی پسندوں سے تعلقات استوار ہیں اور کالعدم تنظیمیں مشترکہ آپریشن کررہی ہیں۔
افغانستان کیساتھ کشدگی کے بعد افغان ٹرانزٹ تجارت میں کم و بیش 70 فیصد کمی آئی ہے اور اب افغانستان ایران کی چاہ بہار پورٹ کو ٹرانزٹ تجارت کیلئے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے، یاد رہے کہ بھارت نے چاہ بہار پورٹ کی تعمیرات کے معاملہ پر ایران کیساتھ اختلافات کو ختم کرکے ازسرنو اس منصوبے پر سرمایہ کاری شروع کردی ہے تاکہ انڈیا اس پورٹ کے ذریعے افغانستان سمیت وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرلے، پاکستان کے فیصلہ ساز فوجی اور سویلین حکمرانوں نے افغانستان کی مذہبی قوتوں کی محبت اور انہیں برسراقتدار لانے کے غم میں اپنے ملک کو تباہ کردیا اور ایک دہشتگرد ملک کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کرلیا اور یہی مذہبی قیادت ہے جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو تسلیم نہیں کرتی اور پاکستان کے خلاف توسیع پسندی پر مبنی پالیسی اختیار کرتی ہے، بھارت جس نے ببرل کارمل اور نجیب حکومتوں کو مستحکم کیا اور عسکری مدد بھی کی اور پاکستان نے جن حکومتوں کو گرانے کیلئے افغان مجاہدین اور بعد میں طالبان کو کھڑا کیا، اُن کی عسکری اور مالی مدد کی لیکن طالبان نے اپنے دونوں ادوار میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی، کابل جانے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغان پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ پسند کرتے ہیں، افغان طالبان کی احسان فراموشی کہیں یا پاکستان کے حل و عقد کی پالیسیوں کو دوش دیں، افغانستان سے پاکستان کو خیر نہیں ملا جبکہ افغانوں نے ہمیشہ بھارت کو ترجیح دی، افغانوں کی مدد کرنے کے چکر میں اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہوا، لوگ بھول چکے ہونگے لیکن سابق وزیراعظم خاقان عباسی کے دل سے پوچھیں جنکے والد اسلام آباد ائیرپورٹ پر راکٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے تھے، دس اپریل 1988 کو اتوار کی صبح تھی جب نو بجکر 50 منٹ پر جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد زوردار دھماکے سے لرز اٹھے تھے، یہ تحفہ بھی ہمارے سابق جنرلز کی افغانستان کے مسلکی دوستوں سے رومانس کا نتیجہ تھا، پاکستان کے حکمراں طبقے نے جب بھی امریکی حکم مانا اور عارضی نفع پر نظر رکھی اپنی اقدار اور نظریہ کو قربان کیا۔
اس سچ سے انکار ممکن نہیں ہے کہ افغانستان سے پاکستان کے تعلقات کی خرابی کا اسلام آباد متحمل نہیں ہوسکتا، ملک کے تیسرا بڑے صوبہ کے لوگوں پر دونوں ملکوں کے تعلقات کی خرابی کے سب سے زیادہ اثرات مرتب ہونگی دہشت گردی کے علاوہ بقیہ اس صوبے کے ملک کے دیگر حصّوں کیساتھ سماجی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، افغانستان سے تعلقات کے بابت اس وقت خیبرپختوخواہ کے لوگوں کے خیالات کو بڑی اہمیت دینی ہوگی شاید یہی وجہ ہے کہ بری فوج کے سربراہ بذات خود پشاور پہنچے اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کو اعتماد میں لیا، طالبان تحریک کی تخریب کاری اور ریاستی فوج سے تصادم ایک حقیقت ہے اور اس کے انسداد اور تخریب کاروں کی بیخ کنی بھی ضروری ہے کسی بھی طاقت کو اسلحہ کے بل بوتے پر آئین اور قانون کو پائیمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے پاکستان کو قومی سطح پر متفقہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور اس کیلئے مذاکرات کیساتھ ساتھ تخریب کاروں کو دندان شکن جواب دینا بھی ناگزیر ہے، فوج کے جوانوں کی اموات کسی بھی پاکستانی کیلئے غم و الم کا سبب ہے، ہمیں وہ طریقے اپنانے ہونگے جس سے فوج کا کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو، اس وقت خیبر پختونخواہ کو فوج سے بہت سی شکایات ہیں اِن پر کان دھرنے کی ضرورت ہے 26 نومبر 2024ء کو جس مجمع پر ریاستی اداروں کی طرف سے گولی چلائی گئی اُس مجمع کے زیادہ تر لوگوں کا تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا جو پی ٹی آئی کا پنجاب کے بعد دوسرا بڑا بیس ہے، کوئی قیامت نہیں آجاتی اگر یہ مجمع رات وہیں گزار لیتا، بری فوج کے سربراہ 26 نومبر کے سانحے کی تحقیقات کے مطالبہ تسلیم کرکے خیبر پختونخواہ کی عوام میں فوج کیلئے دوبارہ ہمدردیاں پیدا کرسکتے ہیں، اگر اس تجویز پر عمل ہوا تو یقین رکھیں افغانستان سے تعلقات کی خرابی کا پاکستان زیادہ بہتر انداز میں مقابلہ کرسکے گا۔