وسطی غزہ میں گذشتہ ہفتے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج کے حملے میں 277 سے زائد فلسطینیوں کے قتل میں امریکہ اور برطانیہ کے کردار کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں، حملے کے بعد جاری ہونے والی خوفناک تصاویر میں جلی ہوئی لاشیں گلیوں میں موجود ملبے پر بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں، اسرائیل کے فوجی دستوں نے کم از کم 274 افراد کو موقع پر بے دردی سے قتل کیا اور 3 فلسطینی کچھ دیر بعد جاں بحق ہوئے، سینکڑوں دیگر کو زخمی حالت میں چھوڑ دیا گیا، اس قتل عام کے بعد عام لوگوں سے پوشیدہ مقام پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرلیا اور بعد ازاں چار اسرائیلی اسیروں کو بازیاب کراکے نصیرات قصبے میں تباہی کا راستہ چھوڑ دیا، ایک وحشیانہ چھاپے کے دوران انہوں نے کامیاب ریسکیو آپریشن کے طور پر بیان کیا، چھاپے کے فوراً بعد امریکی میڈیا نے اس قتل عام میں واشنگٹن کے، نیویارک ٹائمز اور اسرائیلی اخبار کی فراہم کردہ معلومات میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کا اسرائیلی حکومت کیساتھ انٹیلی جنس تعاون کی تفصیلی کردار کا اعتراف کیا گیا ہے، آن لائن نیوز میگزین کریڈل نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی، برطانوی اور امریکی حکام نے دونوں ملکوں کی افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے باہمی اشتراک کیساتھ ڈرون اور سیٹلائٹ کی تصاویر اور کسی بھی معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے ایک فیوژن سیل قائم کیا جس سے اسرائیلی قیدیوں کے مقامات کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اکتوبر کے اوائل میں غزہ پر اسرائیلی فوج کی جارحیت کے بعد سے ہی امریکہ اور برطانیہ کے ڈرونز اسرائیلی ڈرونز کے ساتھ مل کر غزہ کی مزید طویل مدت اور زیادہ علاقے کی نگرانی کررہے تھے، آن لائن نیوز میگزین کریڈل نے لکھا کہ ایک بار جب اسرائیلی قیدیوں کے مقام کی شناخت ہو گئی تو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے قائم کردہ مشترکہ فیوژن سیل میں موجود تینوں ملکوں کے ماہرین نے قیدیوں کو باحفاظت نکالنے کی منصوبہ بندی شروع کی تھی، رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فورسز نے سات اکتوبر 2023ء کے قیدیوں کی رہائی کے آپریشن کی طرف توجہ مبذول نہ ہوسکے اس لئے پناہ گزین کیمپ پر وسیع پیمانے پر فضائی بمباری کی جس نے فلسطینیوں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا اور بڑے پیمانے پر لوگ شہید ہوئے، جبکہ زمینی فوج نے اُن گھروں کی تلاشی جن میں سے زیادہ تر ایسے گھر تھے جہاں کوئی نہیں رہتا تھا اور لوگوں کی آمد و رفت بھی نہیں تھی، جہاں سے اسیروں کو بازیاب کرایا گیا، واضح رہے حماس نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے دوران 253 اسرائیلیوں کو حراست میں لیا تھا اور اب بھی حماس کے پاس سینکڑوں اسرائیلی قیدی موجود ہیں، جو طویل جنگ کے بعد سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد کے نتیجے میں دونوں اطراف سے جنگی قیدیوں اور دیگر اسیران کی رہائی ہوسکے گی۔