تحریر : محمد رضا سید
قطر جمعرات کو غزہ میں جنگ بندی کے لئے مذاکرات کی میزبانی کرنے جا رہا ہے، جن کا مقصد ایک ایسا معاہدہ کروانا ہے جو اب تک ممکن نہیں ہو سکا اور امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ کو امید ہے کہ جنگ بندی معاہدہ ہونے کی صورت میں ایران کا غصّہ کم کیا جاسکتا ہے اور وہ اسرائیل پر حملے روک دے گا یوں ایک بڑی جنگ سے بچا جا سکتا ہے، جو خطے میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات کیلئے بھی یکساں خطرہ ہے، امریکہ، قطر اور مصر نے اسرائیل اور حماس کو بطور ثالث مذاکرات کی دعوت دی ہے تاکہ عرصے سے تعطل کا شکار رہنے والے جنگ بندی معاہدے کو پائے تکمیل تک پہنچایا جائے، اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی جارحیت کے دوران غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 49 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، مذاکرات کے منتظمین کے قریبی ذرائع نے بدھ کو بتایا کہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوں گے، مذاکرات کے حالیہ دور میں تعطل اُس وقت پیدا ہوا جب غاصب اسرائیل نے ایران کی قومی سلامتی کو نظر انداز کرتے ہوئے تہران میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کردیا تھا، اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے کمانڈر فواد الشکری کی اسرائیل کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل کی اہم فوجی اور غیرفوجی سرکاری تنصیبات پر متعدد حملے کئے ہیں، جس کی وجہ سے متعدد اسرائیلی شہروں میں اُس کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے، اس دوران اسرائیل کے جارحانہ رویہ کو ایران بڑے قریب سے دیکھ رہا ہے اور اسرائیل پر حملہ کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جارہا ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ ایران بھی تل ابیب میں اسرائیل کی کسی اہم شخصیت کو نشانہ بنانے کیلئے ھوم ورک کررہا ہے تاکہ حساب کتاب مکمل کیا جاسکے جبکہ حزب اللہ اسرائیل کے کسی حساس مقام پر حملے کی تیاری مکمل کرچکی ہے، تہران اور ایران کے تمام شہروں میں شہری سرگرمیان معمول کے مطابق جاری ہیں جو اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ اسرائیل پر ایران کے حملے کے باوجود کسی بھی بڑی جنگ کے آغاز کا امکان نہیں ہے، تہران میں موجود غیرجابندار تاجر مہدی روغنی کا کہنا ہے کہ تہران میں بلاخوف کارروباری سرگرمیاں جاری ہیں اور عوام میں اس بات پر اتفاق ہے کہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ ایران کے قابل احترام مہمان تھے اور انہیں نشانہ بناکر اسرائیل نے ایسا جنگی جرم کیا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہوگیا ہے، تہران میں انسانی حقوق کی معروف کارکن خانم نیلوفر تقوائی کا کہنا ہے کہ عالمی برادری نے اسرائیل کے جرم پر سزا تجویز کردیتی تو ایرانی عوام اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی پر دو رائے ہوسکتی تھی مگر اقوام متحدہ سمیت مغربی طاقتوں نے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر نرم رویہ اختیار کرکے جنگ سے اجتناب کے راستے کو مسدود کردیا ہے۔
دوحہ اجلاس امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کی شرکت کے قوی امکانات ہیں اور امریکہ کی کوشش ہوگی کہ اسرائیل کو بچانے کیلئے جنگ بندی پر اتفاق رائے کرایا جاسکے، اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد کی صورتحال میں حماس جنگ بندی کیلئے اپنے مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی، جمعرات کو شروع ہونے والے دوحہ مذاکرات سے قبل بیک ڈور رابطوں میں حماس نے اسرائیل کی جنگ بندی کے عملی نفاذ سے متعلق بعض اسرائیلی تجویز کو مسترد کرکے اس کے مقابلے میں اپنی تجاویز کو جنگ بندی معاہدے میں شامل کرنے پر اصرار کیا ہے، اسرائیل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ دوحہ اجلاس میں شرکت کرے گا، تل ابیب نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور شین بیٹ کے سربراہان دوحہ مذاکرات میں شرکت ہوں گے تاہم یہ واضح نہیں کہ حماس دوحہ اجلاس میں شرکت کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں تاہم یہ طے ہے کہ حماس کی قیادت ثالث عرب ملکوں کے ذریعے دوحہ اجلاس میں بلواسطہ ضرور شریک رہے گی، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد سے نومبر 2023 میں صرف ایک ہفتے تک فائر بندی ہوئی تھی، اس کے بعد سے ثالثی کی کوششیں بار بار تعطل کا شکار رہی ہیں اس وقت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کے بدلے درجنوں اسرائیلی قیدی رہا کیے تھے، حماس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ وہ ثالثوں کے ساتھ اپنے مشورے جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ اس نے مزید مذاکرات کرنے کے بجائے اس تجویز کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا جو امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کو پیش کی تھی، امریکی صدر جو بائیڈن نے اس وقت کہا تھا کہ مرحلہ وار منصوبہ ابتدائی چھ ہفتوں کی مکمل فائر بندی غزہ سے کچھ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور محصور علاقے میں انسانی امداد میں اضافہ سے شروع ہوگا جبکہ متحارب فریق لڑائی کے مستقل خاتمے پر بات چیت کریں گے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے بدھ کو کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے حالیہ دنوں میں مشرق وسطیٰ کے متعدد ہم منصبوں کو بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہمیں اس کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور یہ کہ کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
ثالثی کی یہ تازہ کوشش ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب 31 جولائی کو حماس کے سربراہ اور فائربندی کے مذاکرات کار اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، تہران اور خطے میں اس کے حمایت یافتہ مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کے اس جارحانہ حملے کا بدلہ لینے کا عہد کیا ہے، جس سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی لڑائی کے 10 ماہ سے زیادہ عرصے بعد وسیع تر تنازع کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، مغربی رہنماؤں نے تہران پر زور دیا ہے کہ وہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر اسرائیل پر حملہ کرنے سے گریز کرے یہ واقعہ بیروت میں اسرائیلی حملے میں حماس کے اتحادی حزب اللہ کے ایک سینیئر کمانڈر کی شہادت کے چند گھنٹوں بعد پیش آیا تھا، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا غزہ میں جنگ بندی معاہدے میں پیش رفت ہونے سے ایران جوابی حملوں کی شدت میں کمی لائے گا؟ امریکی صدر جو بائیڈن کو اُمید ہے کہ جنگ بندی کے امکانات پیدا ہونے کے بعد ایران کا غضہ کم ہوجائیگا تاہم ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ تہران مغربی ممالک کے اس مطالبے کو مسترد کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرے، جس نے اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے، گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے امید ظاہر کی ہے کہ تہران کی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔