تحریر: محمد رضا سید
پچھلے ہفتےعالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے اسرائیل کے کریڈٹ اسکور کو اے مثبت سے کم کر کے اے کر دیا ہے، جس کی وجہ مسلسل ایک سال سے زائد عرصے کے دوران اسرائیلی معیشت کی سست روی ہے جو 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں اسرائیل جارحیت کے نتیجے میں تل ابیب کے حالت جنگ میں ہونے کی وجہ ہے، اسرائیل نے اکتوبر 2023ء کے دوسرے ہفتے میں ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ یہ جنگ اُس وقت ختم کریں گے جب حماس کا مکمل خاتمہ ہوجاتا ہے، حماس کی جانب سے غیر اعلان شدہ مگر دفاعی مبصرین کے مطابق حماس الجہاد الاسلامی کے مجموعی جنگجوؤں کی تعداد 15000 ہے، تل ابیب کا دعویٰ ہے کہ اس نے 60 فیصد حماس کے جنگجوؤں کو ہلاک کردیا ہے، حماس نے اپنے جنگجوؤں کی شہادت کے اعداد و شمار تو جاری نہیں کئے لیکن آزاد اور مصدقہ سفارتی ذرائع کا ماننا ہے کہ حماس کی عسکری قوت 97 فیصد برقرار ہے، اسرائیل زبردست فوجی مداخلت کے باوجود حماس کی زیرزمین سُرنگوں کی نشاندہی اور اسے تباہ کرنے کی کوششوں میں ناکام رہی ہے اسی ناکامی کو تل ابیب کی انتہائی دائیں بازوں کی حکومت کے غصّے کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور جو فلسطینی اسکولوں میں پناہ گزین خاندان کوصرف اس شبہ میں نشانہ بنارہی ہے کہ کہیں یہ حماس کے جنگجو موجود تو نہیں ہیں، اسکولوں کو اسرائیلی فوج کی جارحیت کا نشانہ بنایا جانا اسی غصّے کا عکس العمل ہے جس میں کم وبیش ایک ہزار سے زائد فلسطینی بچے اور عورتیں جام شہادت نوش کرچکی ہیں۔
فِچ نے غزہ میں جاری جنگ کا حوالہ دیا اور جغرافیائی سیاسی خطرات کو اسرائیلی معیشت کی تنزلی کااہم محرک قرار دیا، عالمی ریٹنگ ایجنسی نے اسرائیل کے نقطہ نظر کو بھی منفی قرار دیا ہے جو حماس کیساتھ جنگ بندی معاہدے کیلئے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے، سات اکتوبر کو حماس کے جوابی مگر مہلک حملے کے بعد اسرائیل کی اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی کی قیمتیں بتدریج گھٹ رہی ہیں اور اب بھی یہ دونوں معیشت کے اشاریئے غیر مستحکم ہیں اسرائیل کے صرف آئی ٹی سکٹر کو پہنچنے والا نقصان کم و بیش 45 ارب ڈالر محیط ہے لیکن ملکی معیشت کے بارے میں خدشات برقرار ہیں، اس سال کے شروع میں موڈیز اور ایس اینڈ پی نے بھی اسرائیل کے لیے اپنی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کی تھی، اسرائیل میں اشیاء کی کھپت، تجارت اور سرمایہ کاری سب ہی تنزلی کی جانب گامزن ہیں جوکہ اسرائیلی حکومت کیلئے ایک بڑا ڈھچکا ہے اور اسکے آثار آئندہ دس سے بارہ سالوں تک نمایاں رہیں گے جبکہ اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرلے اور امن کا ماحول پیدا کرئے۔
فچ نے اسرائیل کو الگ سے خبردار کیا ہے کہ وہ ایران سےبڑھتی ہوئی کشیدگی کی سطح کو کم کرئے بصورت دیگر اسرائیل کے لئے اضافی فوجی اخراجات اسکی متزلزل معیشت کیلئے تباہ کُن ہوگا، بینک آف اسرائیل نے اندازہ لگایا ہے کہ 2023-2025 کے لئے روزمرہ کے جنگی اخراجات 55 بلین امریکی ڈالر ہوسکتے ہیں، یہ فنڈز ممکنہ طور پر زیادہ قرض لینے اور بجٹ میں کٹوتیوں کے امتزاج کے ذریعے محفوظ کیے جائیں گے، نتیجہ یہ ہے کہ جنگی کارروائیاں معیشت پر دباؤ ڈال رہی ہیں، اتوار کے روز، اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات نے اندازہ لگایا کہ 2024 کی پہلی ششماہی میں پیداوار میں 2.5 فیصد سالانہ شرح سے اضافہ ہوا ہے ، جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 4.5 فیصد سے کم ہے، جنگ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل کی معیشت میں پچھلے سال 3.5 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی تھی، آخر میں، پیداوار میں صرف 2 فیصد اضافہ ہوا، معیشت کے دیگر حصوں نے ایک اہم ہٹ لیا ہے،گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں اور جنگ شروع ہونے کے ہفتوں بعد اسرائیل کی مجموعی جی ڈی پی میں 20.7 فیصد سالانہ بنیاد پر کمی واقع ہوئی، اس مندی کی وجہ نجی کھپت میں 27 فیصد کمی، برآمدات میں کمی اور کاروباری اداروں کی سرمایہ کاری میں کمی تھی، سال کے آغاز میں گھریلو اخراجات میں کم وبیش 50 فیصد تک کمی آئی، اسرائیلی شہریوں نے مستقبل کے حالات سے نمٹنے کیلئے اپنے اخراجات کم کرلئے نتیجہ صنعتی پیداوار میں کمی کی صورت میں پیدا ہوئی۔
اسرائیل نے فلسطینی کارکنوں کی نقل و حرکت پر بھی سخت کنٹرول عائد کیا، 160,000 تک کارکنوں کو کام کاچ کیلئے جاری خصوصی اجازت نامے منسوخ کردیئے گئے ، جس نے صنعتی سست روی کو وجود دیا، اس کمی سے نمٹنے کے لئے اسرائیل نےبھارت اور سری لنکا میں بھرتی مہم چلا ئی ہے، جو غریب ملکوں کی فہرست میں شامل ہیں ، اسرائیل کے تعمیراتی اور زراعت کے شعبوں میں مزدوری کے مواقعوں میں شدید کمی کی وجہ سے جان پر کھیل کر اسرائیل پہنچنے والے کارکن اب واپسی کا سفر کررہے ہیں، گزشتہ سال نومبر کے بعد بھارت سے بھرتی کئے گئے مزدوروں کی واپسی کی شرح 23 اشاریہ 7 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے ، بزنس سروے کمپنی کوفیس بی ڈی آئی کے مطابق، تقریباً 60,000 اسرائیلی کمپنیاں اس سال افرادی قوت کی کمی، رسد میں خلل اور کاروباری افزائش میں کمی کی وجہ سے بند ہو جائیں گی، اسی طرح جنگ نے سیاحت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، رواں سال موسم گرما میں سیاحت کی غرض سے اسرائیل جانے والوں میں 68 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے، اب سرد موسم شروع ہونے کو ہے جب سیاحت روایتی طور پر کم رہتی ہے، معیشت پر نظر رکھنے والی عالمی ریٹنگ ایجنسیاں موسم سرما میں ایدھن کی طلب میں اضافے کو ایران ، اسرائیل جنگ کے تناظر میں اسرائیل کیلئے انتہائی ہولناک قرار دے رہی ہیں
جنگ نے حکومتی اخراجات میں زبردست اضافے کو جنم دیا ہے۔ آکسفورڈ اکنامکس کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار ایلیوٹ گارسائیڈ کے مطابق 2023 کے آخری تین مہینوں میں 2022 کے اسی عرصے کے مقابلے میں فوجی اخراجات میں 93 فیصد اضافہ ہوا ہے، ایلیوٹ گارسائیڈ نے مزید بتایا کہ 2024 ء میں ماہانہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فوجی اخراجات پچھلے سال سے تقریباً دوگنا ہوچکے ہیں،اس میں سے زیادہ تر اضافہ ریزروسٹ ویجز، آرٹلری، اور اسرائیل کے آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم کے انٹرسیپٹرز پر استعمال کیا جائے گا، اسرائیل کو اس سال امریکہ سے تقریباً 14.5 بلین ڈالر کی اضافی فنڈنگ بھی ملی ہے جو کہ امریکہ کی طرف سے ملک کو فراہم کی جانے والی سالانہ امداد میں 3 بلین ڈالر سے زیادہ ہے، گارسائیڈ کی اسٹیڈی کے مطابق ابھی تک بجٹ کے دیگر حصوں جیسے صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم میں کوئی بڑی کٹوتی نظرنہیں آ رہی ہے، حالانکہ امکان ہے کہ تنازعات میں اضافے سےاس مد میں بھی کٹوتیاں کی جائیں گی، آکسفورڈ اکنامکس نے اندازہ لگایا ہے کہ ایران کا نیا محاذ نہیں کھلتا ہے تو اسرائیل کی معیشت اس سال 1.5 فیصد کی شرح نمو پر آ جائے گی جو کم ترقی اور بلند خسارے کی وجہ سے اسرائیل کے قرضوں کے پروفائل پر مزید دباؤ ڈالیں گے، جس سے ممکنہ طور پر قرض لینے کے اخراجات بڑھیں گے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوگا۔