عام تاثر ہے کہ سیاسی شخصیات میں استعداد کی بہت زیادہ کمی سول بیوروکریسی اور فوجی مقتدرہ پر انحصار کرنے پر انہیں مجبور کردیتی ہے، پاکستان کے قیام کے 74 سال مکمل ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں نظام میں اپنی جڑیں پیوست کرنے میں ناکام رہیں ہیں لہذا فوجی مقتدرہ اور سول بیوروکریسی نے اس خلا کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے لئے مراعات ہی مراعات رکھیں اور ملک کا بجٹ میں سرکاری اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو فوجی مقتدرہ، سول بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی مراعات ماشا اللہ اور سبحان اللہ رہائش، پیٹرول، مفت بجلی، نوکر چاکر، گاڑیاں سب ریاست کے خرچے میں شامل ہیں، سوشل میڈیا پر فوجی مقتدرہ، سول بیوروکریسی اور ججز کو تقریباً مفت بجلی مہیا کئے جانے کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، اب لاہور ہائی کورٹ میں سول بیوروکریٹسی اور ملٹری افسران کو بجٹ میں انکم ٹیکس سے استثنیٰ دینے کا اقدام چیلنج کردیا گیا ہے، درخواست میں اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے موجودہ حکومت کا متعصبانہ فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔
درخواست شہری مشکور حسین نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی گئی درخواست میں وفاقی حکومت اور وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو فریق بنایا ہے، شہری نے اپیل میں مؤقف اپنایا کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں بیورو کریسی اور ملٹری افسران کو بڑا ریلیف دیا ہے، بیورو کریٹس اور ملٹری افسر کو پراپرٹی بیچنے پر انکم ٹیکس ادا کرنے سے استثنٰی دے دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت سب شہری برابر ہیں، ٹیکس سے استثنیٰ آئین کے آرٹیکل 2 کے خلاف ہے، شہری نے عدالت سے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 236 سی کو بذریعہ فنانس ایکٹ ترمیم غیر قانونی قرار دینے کی اپیل کی ہے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک سیکشن 236 سی پر عملدرآمد سے روکنے کی اسدعا کی ہے۔