تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کی سپریم کورٹ نے 9 مئی واقعے کی سماعت کے دوران پولیس اور پراسیکیوشن کی نام نہاد تفشیش پر سخت سرزنش کرتے ہوئے واقعے میں غلط طور پر ملوث کئے گئے 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی، سپریم کورٹ میں 9 مئی واقعہ میں ملوث ملزمان کی ضمانت سے متعلق سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال پوچھا کہ کیا ریلی نکالنا یا سیاسی جماعت کا کارکن ہونا جرم ہے؟ طلبہ یونین اور سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ہی آج یہ بربادی ہوئی ہے، انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم(عمران خان) کو غدار مان لیں؟خدا کا خوف کریں یہ کس طرف جا رہے ہیں، آئی ایس آئی کے کیمپ آفس پر ہنگامے کی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات لگانے پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے پولیس حکام کی ایک بار پھر سرزش کی اور بتایا کہ دہشت گردی وہ ہے جو اے پی ایس میں ہوئی، پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسپیشل برانچ لاہور کا ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی گواہ ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ واقعہ راولپنڈی کا ہے اور گواہ لاہور کا ہے، انہوں نے کہا کہ آپ کو پھر علم ہی نہیں کہ دہشت گردی ہوتی کیا ہے؟ جب اعلیٰ عدلیہ نے سماعت کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج کے بارے میں پوچھا تو سرکاری وکیل نے بتایا کہ مظاہرین نے کیمرے توڑ دیئے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سی سی ٹی کیمروں کی ریکارڈنگ محفوظ ہوتی ہے، عدالت نے ریماکس دیئے کہ آپ سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں لڑیں عدالتوں کو اکھاڑا نہ بنائیں، اعلیٰ عدلیہ کے ان اہم ترین ریماکس نے 9 مئی کے افسوسناک واقعات اور منصوبہ بندی کی قلعی کھول دی ہے۔
پاکستان میں 9 مئی کو بعض عناصر کی جانب سے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف زبردست آپریشن کا آغاز ہوا، بدھ 20 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد سے الیکشن نتائج کی تبدیلی تک پاکستان تحریک انصاف کیساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کو سیاسی کھیل کا حصّہ قرار دیا ہے، اور سارا بھانڈا تو پولیس کی تفتیش کے نقائص نے پھوڑ دیئے جب حقیقت کچھ اور بیانیہ کچھ ہو تو اسطرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 10 ہزار سے زائد مردوں اور عورتوں کو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں سیاسی بنیاد پر گرفتار کیا گیا، جن میں 80 سالی سے زائد کے قیدی بھی تھے جنھیں ابتک صرف اس لئے قید رکھا گیا ہے کہ انھوں نے نوازشریف کے مقابلے میں الیکشن کیوں لڑا اگر یہ وجہ نہیں تو تحریک انصاف پنجاب کی خاتون صدر کو رہا کردینا چاہیئے تھا ابھی بھی کچھ حلقوں کی طرف سے فوجی عدالتوں کی حمایت کی جارہی ہے جن میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں پر مقدمات چلائے جائیں اور محدود انصاف کے ذریعے انہیں سزائیں دلوائی جائیں، میرے خیال میں سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں لڑنے کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریمارکس نے اسی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، پاکستان مسلم لیگ(ن) ہمیشہ کاندھوں کا استعمال کرتی ہے اور بار بار فوج کو ن لیگ کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس جماعت کے قائد نوازشریف ایک سے زائد مرتبہ قومی راز کھول کر ریاست کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف پہلے دن سے مطالبہ کررہی ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی شفاف اور اوپن تحقیقات کرائی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی پانی ہوجائے، اس حقیقت میں بڑا وزن ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے 9 مئی کے واقعات میں ناجائز طور پر ملوث کیا، دنیا نے دیکھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے نہیں دیا گیا یہ تو عمران خان کی دیومالائی شخصیت کا سحر تھا کہ 8 فروری کے انتخابات میں قوم نے اُن لوگوں کو منتخب کیا جو آزاد حیثیت سے عمران خان کے نام پر انتخابی میدان میں وادر ہوئے تھے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان کی سحر انگیز شخصیت نے ایسی ایسی سیاسی روایات قائم کی ہیں، جن پر ابھی تک مغربی ملکوں کی اجارہ داری تھی مثلاً آزاد حیثیت میں منتخب ارکان پیپلز پارٹی کے پیوپاریوں کے ہاتھوں فروخت نہیں ہوئے بلکہ وہ استقامت کیساتھ ابھی تک عمران خان کیساتھ کھڑے ہیں، یہ منظر پاکستان کی سیاسی اخلاقیات میں ایک زبردست اضافہ ہے، 9 مئی کے واقعات کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ واقعات تو ہوئے تھے، کورکمانڈر ہاؤس چلایا گیا تھا، فوجی جوانوں کو تضْحِیک کا نشانہ بنایا گیا تھا تو وہ کون لوگ تھے اِن کے بارے میں قوم کو اگاہ کیا جانا ضروری ہے تاکہ سیاست میں سازشوں کی آمیزِش کرنے والے بے نقاب ہوں اور پاکستان کا جمہوری سفر استوار رہے، یاد رہے علم ہر موقع پر انسان کو اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے۔