تحریر: محمد رضا سید
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا ہے، سپریم کورٹ کے عبوری حکم سے پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہوگی اور اُن قوتوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑے گی جو طاقت کے زور پر عوام کے ووٹ پر رات کے اندھیرے میں ڈاکہ ڈال چکے تھے، 9 مئی سے قبل اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے آنے والے اس فیصلے نے فاشسٹ قوتوں کو ایک بار پھر آئین کا سبق پڑھانے کی کوشش کی ہے، دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ 9 مئی کے اسکرپٹ منصوبے پر عملدرآمد کے بعد پاکستان تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی لگادی گئی تھی اور 8 فروری 2024ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے آزاد حیثیت سے صرف عمران خان کے نام کیساتھ الیکشن لڑا اور بڑی تعداد میں اُمیدوار کامیاب بھی ہوئے، عمران خان، پاکستان میں اُصولی سیاست کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں، جس کا اغاز الیکشن کے دوران ایسے اُمیدواروں کو کھڑا کرکے کیا گیا، جنھوں نے منتخب ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کی جانب سے لالچ اور مسلم لیگ(ن) کے جانب سے انتظامیہ کے دباؤ کو یکسر مسترد کرکے اپنے قائد عمران خان کیساتھ وفاداری کو اہمیت دی، عمران خان پاکستانی سیاست کو اُصولی اور نظریاتی بنیادوں پر استوار کررہے ہیں جسکا مقصد عوام کو بہتر زندگی اور خوشگوار ماحول دینا ہے، عمران خان نے پاکستان کی سیاست کے اُصولوں میں جو درستگی کا آغاز کیا ہے لگتا ہے کہ عدلیہ کے بیشتر جج بھی سیاست کو آئین اور قانون کے نیچے لانے کیلئے کمربستہ ہیں۔
ایسے حالات میں جہاں بلاول بھٹو اور آصف زرداری کی پاکستان پیپلزپارٹی اور نوازشریف اور مریم کی مسلم لیگ(ن) عوام کے طاقت کے بجائے مال و دولت اور انتظامیہ کے بل بوتے پر سیاست کرنا چاہتے ہیں، عمران خان پاکستان میں نظریاتی سیاست کی بالادستی کیلئے پس دیوار زندان اپنی زندگی کے قیمتی دنوں کو گزار رہے ہیں، بلاول بھٹو کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اُنھوں نے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والوں کو ساتھ ملاکر حکومت بنانے کا عندیہ دیا تھا، یہ گندی سیاست ہے، یہ جمہوریت نہیں ہے، پاکستان میں جمہوریت تو محترمہ فاطمہ جناح اور شیخ مجیب الرحمٰن کیساتھ رخصت ہوچکی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کا بھی رویہ جمہوریت کیلئے زیادہ خوشگوار نہیں تھا، پاکستان کی سڑی گلی اور گندی سیاست کو عمران خان کے نام پر منتخب ہونے والوں کی اکثریت نے گٹربرد کردیا ہے اور بلاول بھٹو کے وزیراعظم بننے کے خواب کو چکنا چور کردیا، سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ جس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر کہا کہ ہم کیس کو باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کر رہے ہیں، عدالتی حکم نامے میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو معطل کر دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق فیصلوں کی معطلی اضافی سیٹیں دینے کی حد تک ہوگی، سنی اتحاد کونسل نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
الیکشن کمیشن نے مارچ میں اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل نہیں ہے کیونکہ پارٹی نے انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کیلئے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی جبکہ الیکشن کمیشن نے مٹھائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ کے مترادف خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کردیں تھیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی دعویدار پیپلزپارٹی نے بخوشی اِن نشستوں پر اپنے اُمیدواروں کو جلد از جلد حلف بھی دلوا دیا یہ گندی سیاست کی ایک اور مثال ہے، اس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے یہ ریمارکس بڑی اہمیت کے حامل ہیں اُنھوں نے کہا کہ عوام نے جو ووٹ دیا، اس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیئے، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے عوامی نمائندگی اور ووٹ کا جس طرح حالیہ انتخابات میں مذاق اُڑایا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کے سیاہ باب میں ایک اور اضافے کا باعث بنا ہے، دونوں جماعتوں میں اب بھی معمولی سی سیاسی اخلاقیات موجود ہے تو وہ فی الفور مخصوص نشستوں سے دسبردار ہوجائیں، عدالتی کارروائی کے دوران جب اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 51 کی تشریح کے لئے لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا کی تو عدالت نے مقدمہ بڑے بینچ کے لئے کمیٹی کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی اور کیس کی سماعت تین جون تک ملتوی کردی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے مقدمے کے حکمنامہ کا سب اہم نکتہ یہ تھا کہ مخصوص نشستوں پر براجماں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ممبران کے ووٹ اور قانون سازی میں رائے معطل تصور ہوگی اور آج سے تین جون کے درمیان کوئی ان مخصوص نشستوں کے ووٹ سے کوئی نئی قانون سازی نہیں ہوسکتی، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ حکومت اب دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگئی ہے، سنی تحریک کی 78 نشستیں دوسری جماعتوں کو دی گئیں جن کی بنیاد پر حکومت دو تہائی اکثریت کا دعویٰ کر رہی تھی، سپریم کورٹ کے محترم ججز کے اس حکم نے دھاندلی کے نتیجے میں برسراقتدار لائی گئی حکومت پارلیمنٹ سے من مانی آئینی ترمیم کرانے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے، جساکہ اعظم نذیر تاڑر کے ایک حالیہ بیان سے تاثر مل رہا تھا کہ وہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت بڑھانے سے متعلق حکومت آئینی ترمیم لانے کی سوچ رکھتی ہے۔