تحریر: محمد رضا سید
شام میں صدر بشار الاسد کی مستحکم حکومت گرانے میں امریکی برطانوی، فرانسیسی اور ترکیہ کا ہاتھ صاف نظر آرہا ہے، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کا عمل شروع ہونے سے قبل متذکرہ ملکوں کی انٹیلی جنس نے اسد حکومت کو گرانے کا تمام ہوم ورک مکمل کرلیا تھا، غور طلب بات ہے کہ شام کے شہروں اور قصبوں پر حملے جن کی قیادت حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اور ترکی کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کررہے تھے، 27 نومبر کو شام کے شمالی شہر حلب کو نشانہ بنانا شروع کیا ، اسد حکومت سے ناراض اور مسلکی تعصب رکھنے والے مسلح گروہوں نے آناً فاناً حلب کے بعد حما اور پھر حمص پر قبضہ کرلیا اور دمشق کی طرف بڑھنے لگےلیکن یہ 24 گھنٹے نہایت اہم تھے جب روس اور ایران نے ترکیہ کو اس بات پر رضامند کرلیا کہ نہ صرف شام کے آئینی صدر کو دارالحکومت چھوڑنے کیلئے محفوظ راستہ دیا جائے گا بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے سیاسی استحکام لانے کیلئے مذاکرات شروع کرائے جائیں گے مزید یہ کہ لبیبا کی طرح سے شام کے سرکاری اداروں کو برباد کرنے کے بجائے انہیں تحفظ دیا جائے، شام کا حالیہ مسلح بحران پیدا کرنے میں ترکیہ نے کلیدی کردار ادا کیا، شام کے سابق صدر بشار الاسد حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران تل ابیب کو شام پر جارحیت سے باز رکھنے میں ناکام رہے تھے، جس کی وجہ سے ایران اور مزاحمتی تنظیموں کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا تھا، جس کی بنیادی وجہ بشار الاسد کی حکمرانی کی گرفت کمزور پڑ چکی تھی۔
شام کے معاشی حالات کی کمزوری نے صدر بشار الاسد کو ناتواں کردیا تھا، 2023ء میں شام کی معیشت 1.2 فیصد سکڑاؤ کے بعد 2024ء میں حقیقی جی ڈی پی مزید 1.5 فیصد سکڑنے کا امکان ہے، بے روزگاری کی شرح غیر معمولی طور پر بلند ہے، بہت سے علاقے انتہائی غربت سے متاثر ہیں، خاص طور پر حلب اور دیر الزور جیسے علاقے جو برسوں کے تنازعات اور نقل مکانی سے تباہ ہو چکے ہیں، 69 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کا شکار ہے، 25 فیصد شامی شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، امریکہ، ترکیہ اور مختلف مسلح گروہ شام سے نکالے جانا والا خام تیل چوری کررہے تھے اور بشار الاسد از خود اِن معاملات کو حل کرنے کی قابلیت کھو چکے تھے، مسلح گروہوں کے تصادم کے بعد شام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے، شام پر پابندیوں اور امیر عرب ملکوں کا صدر بشار الاسد کیساتھ مخصمانہ رویہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس صورتحال میں شام کی مالی امداد کے ہر دروازے بند تھے، شامی حکومت کی آمدنی محدود ہوچکی تھی عمومی ٹوریزم نہ ہونے کے برابر تھا، معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار تھیں دمشق کے لوگ بھی اس صؤرتحال سے پریشان تھے جو بشار الاسد کا مضبوط سیاسی گڑھ تھا، شام کی آبادی کے 25 فیصد علویوں نے مسلح گروہوں کے مقابلے میں بشار الاسد کا بہت ساتھ دیا لیکن اب بس ہوچکی تھی، ترکیہ جو اپنے پڑوس ملک میں دو عرب ریاستوں اور وہاں موجود کردوں کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھا، ترکیہ نے نیٹو اور امریکہ انٹیلی جنس کیساتھ ملکر کابل طرز پر تبدیلی کا منصوبہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ 2011ء سے 2015ء تک داعش اور النصرہ جیسی بیرونی فنڈڈ مسلح تنظیموں نے شامیوں کا جس طرح قتل عام کیا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے مگرحالیہ مسلح تحریک نے قتل و غارتگری کا راستہ اختیار نہیں کیا اسی لئے حلب اور حمص کے لوگوں نے ترکیہ کے حامی مسلح لوگوں کے خلاف مزاحمت نہیں کی اور اسی طرح دمشق میں بھی ہوا، صدر بشار الاسد کی حامی قوتیں بھی انہیں بوجھ سمجھنے پر مجبور ہوچکی ہیں، ترکیہ اور نیٹو ملکوں کی حمایت سے ہونے والی حالیہ مسلح بغاوت کے خلاف ایران نے شام کی فوجی مدد کرنے کے بجائے سفارتی سطح پر شام کے سیاسی بحران کا حل نکالنے پر زیادہ زور دیا کیونکہ تہران میں منتخب ہونے والے صدر ایران کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر مغرب کیساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرنے کے خواہشمند ہیں کیونکہ ایران بھی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، معاشی سرگرمیاں کبھی ماند پڑتی ہیں اور کبھی گرم ہوجاتی ہیں، ایران نے ترکیہ کیساتھ سفارتی رابطوں کے ذریعے باور کرایا تھا کہ شام میں مسلح گروہوں کو ہرگز عراق اور لبنان میں مداخلت سے باز رکھا جائے گا، جس کی ضمانت نہ صرف ترکیہ، روس بلکہ نیٹو ملکوں نے دی ہے، اس اتفاق کے بعد ہی کرد اور دیگر ملکوں سے آئے مسلح گروہ دمشق میں بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نےجمعے کو بغداد میں عراقی وزیرخارجہ فواد حسین اور شامی ہم منصب بسام صباغ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے تمام تر تحفظات واضح طور پر پیش کردیئے تھے کیونکہ ایران کیلئے حزب اللہ، حماس کو بچانا زیادہ ضروری تھا کیونکہ اسرائیل کی فوجیں لبنان کی سرحد پر کھڑی ہیں۔
شام میں مسلح گروہوں کو امریکہ اور ترکیہ کی حمایت حاصل ہے لہذا شام میں داعش اور النصرہ جیسی تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں نہیں ملیں گی، تمام گروہوں کو سیاسی عمل میں شامل کیا جائے گا، مسلکی بنیادوں پر خونریزی نہیں ہوگی جبکہ شام میں موجود مقدسات کا مکمل احترام کیا جائے گا، ایران نے ترکیہ کی جانب سے مضبوط یقین دہانیوں کے بعد ایران شام کے بحران سے اپنے آپ کو الگ کرلیا، اب دیکھنا ہوگا کہ عرب اور مغربی ممالک شام کی تعمیر نو اور اقتصادی بحالی کیلئے کیا کرتے ہیں، امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کو شام کے معاملے سے دور رکھنے پر اصرار کیا ہے، فی الحال شام ایک غیر یقینی کی صورتحال سے گزر رہا ہے، سیاسی ڈھانچہ اور کثیر الجہتی حکومت بننے کے بعد ہی تجزیہ کیا جاسکے گا کہ ترکیہ کی سربراہی میں صدر بشار الاسد کو ہٹانے کا مسلح آپریشن کس حد تک کامیاب ہوا، شام میں معاشی بحالی کیلئے اچھی خاصی رقم درکار ہے ترکیہ اس قابل نہیں کہ وہ دمشق حکومت کی مسلسل مالی مدد کرسکے لامحالہ یورپی یونین اور امیر عرب ملکوں کو شام پر خطیر رقم خرچ کرنا پڑے گی تاکہ دمشق حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو اور شامی عوام کی زندگیاں بہتر بنائی جاسکیں، دمشق میں قائم ہونے والی حکومت کو یورپ سے جلاوطن شامی مہاجرین کی واپسی کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اور غالب اُمید ہے کہ شامی مہاجرین کو دوبارہ ملک میں بسانے کیلئے ابتدائی وسائل دیکر انہیں دمشق حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا، دمشق میں جلد کثیر الجہتی حکومت نہ بن سکی تو شام ایک بار پھر مسلح گروہوں کی آماجگاہ بن جائے گا، شام کا کچھ بھی نصیب ہو حالات بتارہے ہیں کہ اس پورے عمل میں اسرائیل سب سے بڑا خسارہ اُٹھانے والا ملک ہوگا۔