اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خطاب کے لیے آنے پر پاکستان سمیت کئی ممالک کے وفد نے غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجاً تقریر سے واک آؤٹ کیا، شہباز شریف اپنی تقریر ختم کر کے نشست پر پہنچے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خطاب کے لئے پوڈیم پر آئے لیکن اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف سمیت پاکستانی وفد نے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا، اس کے علاوہ فلسطین کے حامی ممالک بشمول ایران اور دیگر کئی ممالک کے وفود نے بھی نیتن یاہو کی تقریر سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا اور باہر چلے گئے جبکہ فلسطین کا وفد بھی اپنی نشست پر اس دوران موجود نہیں تھا، تقریر کے دوران کچھ لوگوں نے شور کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی کوشش بھی کی لیکن ایوان میں موجود سکیورٹی افسران نے انہیں چپ کرا دیا، دوسری جانب تقریر کے موقع پر حماس کی جانب سے یرغمال بنائے افراد کے خاندان کے لوگ بھی ہال میں موجود تھے جنہوں نے نیتن یاہو کا کھڑے ہو کر تالیوں سے استقبال کیا، غاصب اسرائیل کے وزیراعظم نتین یاہو نے اپنی تقریر میں کہا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات معمول پر آ رہے تھے کہ 7 اکتوبر رونما ہو گیا جب ایران کی پشت پناہی میں حماس کے (مزاحمت کاروں) نے اسرائیل پر حملہ کردیا، اسرائیل سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 251 افراد کو اغوا کر لیا، یہ مناظر نازی ہولوکاسٹ کی یاد دلاتے ہیں۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل جنگ کے بعد غزہ میں حماس کی حکومت قبول نہیں کرے گا، اس علاقے کو غیر فوجی بنا کر شدت پسندی سے پاک کیا جائے گا، اس کے بعد ہی اسرائیل جنگ کے آخری مرحلے کے بارے میں یقین دہانی کرا سکے گا، مکمل فتح تک جنگ جاری رہے گی اور اس کا کوئی متبادل نہیں، انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں ایسی مقامی شہری انتظامیہ کے لئے علاقائی ملکوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے جو اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھے، ایران کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس نے بحر ہند سے بحیرہ روم تک دہشت پھیلا رکھی ہے، اگر اسے روکا نہ گیا تو ناصرف مشرق وسطیٰ بلکہ باقی دنیا میں بہت سے ممالک بھی خطرے میں ہوں گے، اسرائیل کے وزیراعظم نے کہا کہ اگر ایران ان کے ملک پر حملہ کرے گا تو اس پر جوابی حملہ کیا جائے گا اور ایران سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تک اسرائیل کی پہنچ نہ ہو۔