اقوام متحدہ نے غزہ جنگ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں عام شہریوں کی اموات میں حیران کن اضافے کی مذمت کی ہے اور یہ تصدیق کی ہے کہ شہید ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے ایک تازہ رپورٹ میں اکتوبر 2023 کے بعد سے بین الاقوامی قوانین کی متعدد خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کی ہیں، رپورٹ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی روک تھام اور احتساب کو یقینی بنانے کیلئے عالمی کوششوں کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے سے بہت سے اقدامات جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور ممکنہ طور پر نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے غزہ کے شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، جن میں اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کا ابتدائی مکمل محاصرہ بھی شامل ہے، بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی افواج کے طرز عمل سے اموات اور زخمیوں کی تعداد کے علاوہ بھوک اور بیماریوں میں شدید اضافہ ہوا، رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد پہنچانے میں مسلسل غیر قانونی رکاوٹ کے باعث شہری بنیادی ضروریات سے محروم ہیں اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی جارہی ہے، جنیوا میں اقوام متحدہ میں غاصب اسرائیل کے مشن نے اس رپورٹ کو روایتی بیان کے ذریعے اسرائیل کو بدنام کرنیکا ذریعہ قرار دیا ہے۔
فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی سرگرمیوں کے سربراہ اجیت سنگھے نے عمان سے ویڈیو لنک کے ذریعے کہا کہ غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جب کہ اس تباہی اور بربادی کے بعد زندہ رہ جانے والے لوگ زخمی، بے گھر اور بھوک سے مررہے ہیں، فلسطین کے وزارت صحت کے مطابق رپورٹ میں غزہ میں اب تک شہید ہونے والے 43 ہزار 500 افراد میں عام شہریوں کے تناسب پر بھی بات کی گئی، تاہم اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود یہ اعداد و شمار قابل اعتماد ہیں، انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ حملوں کے پہلے 6 ماہ کے دوران وہ مبینہ طور پر شہید ہونے والے 34 ہزار 500 افراد میں سے تقریبا 10 ہزار کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہا ہے، اجیت سنگھے نے اپنے تصدیق کے سخت طریقہ کار سے متعلق بتایا جس میں کم سے کم 3 الگ الگ ذرائع شامل ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے شہید ہونے والوں میں اب تک 70 فیصد کے قریب بچوں اور خواتین کو پایا ہے، انہوں نے کہا کہ رپورٹ کے نتائج بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کی منظم خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہیں، مصدقہ اموات میں کم از کم 4700 بچے اور 2461 خواتین شامل ہیں۔