پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور قتل عام سمیت دنیا کے نظام کو درپیش سنگین چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے ورلڈ آرڈر گونج سنائی دے رہی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری بار خطاب کرنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں کہا تھا کہ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا کی امن اور خوشحالی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے اور پاکستان بابائے قوم کے اس عزم کے ساتھ کھڑا ہے، ان کا کہنا تھا کہ آج دنیا کے نظام کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں، غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور قتل عام، یوکرین میں خطرناک تنازع، افریقہ اور ایشیا بھر میں تباہ کن تباہ کن تنازعات، دنیا بھر میں بڑھتا ہوا تناؤ، دہشت گردی میں اضافہ، بڑھتی ہوئی غربت، ماحولیاتی تبدیلی کے ہمالیا نما چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے ورلڈ آرڈر کی گونج سنائی دے رہی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ان چیلنجز کو دیکھتے ہوئے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فیوچر سمٹ بلانے کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں مستقبل کے معاہدوں کے ترقی، امن و سکیورٹی، ٹیکنالوجی اور عالمی گورننس کے حوالے سے 54 اقدامات کو اپنانے کا معاہدہ طے پانا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج میں آپ کے سامنے غزہ کے عوام کی حالت زار پر پاکستان کے عوام کے درد اور تکلیف کو بیان کرنے کے لئے یہاں موجود ہوں، اس مقدس سرزمین پر ہونے والے ظلم پر ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں، یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے انسانیت کے ضمیر اور اس ادارے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ جب غزہ میں بچے اپنے گھر کے ملبے تلے دفن کیے جا رہے ہیں تو ہم تب بھی خاموش رہیں گے، کیا ہم ان ماؤں کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لیں گے جو اپنی جھولیوں میں اپنے بچوں کے بے جان لاشے لیے بیٹھی ہیں، یہ کوئی تنازع نہیں بلکہ فلسطین کے معصوم عوام کو منظم طریقے سے ذبح کیا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کا خون اور قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی، ہمیں ان کو درپیش مصائب کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمیں دو ریاستی حل کے ذریعے پائیدار امن کے قیام کی کوششیں کرنی چاہئیں اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک ایسی قابل عمل، محفوظ اور خودمختار ریاست فلسطین قائم کرنی چاہیے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو اور ان اہداف کے حصول کے لیے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔