یمنی بحری افواج نے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے ساحل پر ایک برطانوی تباہ کن بحری جنگی جہاز اور دو تجارتی جہازوں پر حملے کئے ہیں، یمنی فوج کے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ یمن کی نیول فورسز نے بحیرہ احمر میں ایچ ایم ایس ڈائمنڈ کو متعدد بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا اور ہدف کو درست نشانہ بنانے کی تصدیق کی ہے، تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا جوابی حملے سے کوئی نقصان ہوا ہے، یمنی فوج نے مزید بتایا کہ ملک کی بحری افواج نے دو تجارتی جہازوں پر بھی حملہ کیا ہے جن کی شناخت تاویشی اور نورڈرنی کے نام سے کی ہے، بیان میں کہا گیا ہے کہ بحیرہ عرب سے گزرنے والے تاویشی اور نورڈرنی دونوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ کہ نورڈرنی پر آگ بھڑک اٹھی، بین الاقوامی جہاز رانی کے شعبے میں سلامتی امور پر نظر رکھنے والے اداروں کے مطابق گزشتہ رات یہ میزائل حملے دو کارگو بحری جہازوں پر کیے گئے، یمن سے فائر کیے گئے ان میزائلوں کے نتیجے میں ایک بحری جہاز پر آگ بھی لگ گئی، دوسری طرف برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے اتوار کے روز کہا کہ یمن کی جانب سے بحیرۂ احمر میں ایک برطانوی ڈسٹرائر جہاز پر بیلسٹک میزائل کے حملے سے متعلق تفصیلات مکمل طور پر درست نہیں ہیں، بحری جنگی جہاز کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے یمن نے اپنے جاری کردہ بیان میں بڑھا چڑھا کر بات کی ہے۔
انٹرنیشنل میری ٹائم سکیورٹی فرم ایمبری کے مطابق ان میزائل حملوں کے باعث دونوں بحری جہازوں کے عملے کا کوئی رکن زخمی تو نہیں ہوا تاہم ایک بحری جہاز کو میزائل لگنے کے بعد آگ لگ گئی تھی، خلیج عدن کے علاقے میں مال بردار بحری جہازوں پر میزائل حملوں کے گزشتہ رات پیش آنے والے واقعات اپنی نوعیت کے کوئی اولین واقعات نہیں تھے، یمن سات اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف اسرائیل کی جانب جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بناتا رہا ہے، اپنے ان حملوں کے لئے یمن میزائلوں کے علاوہ مسلح ڈرونز بھی استعمال کرتا ہے ان کی ان کارروائیوں کے باعث خلیج عدن اور قرن افریقہ کے قریبی سمندری علاقے سے گزرنا بین الاقوامی تجارتی مال برداری کرنے والے بحری جہازوں کے لئے انتہائی پرخطر ہو چکا ہے، اس وجہ سے انٹرنیشنل شپنگ اور انشورنس کی مد میں اخراجات بہت زیادہ ہو چکے ہیں اور بڑے بڑے بین الاقوامی اداروں کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن کا راستہ غیر محفوط ہو جانے سے قبل انٹرنیشنل کمرشل شپنگ کا تقریباً 12 فیصد حصہ اسی راستے سے عمل میں آتا تھا۔