یمن کا خلیج عدن میں بڑی کارروائی اسرائیل کی سلامتی داؤ پر لگئی ہے دھمکیاں دینے سے گریز کرئے
تحریر : محمد رضا سید
یمن کے حوثی باغیوں نے خلیج عدن میں ایک بار پھر بحری جہاز پر حملہ کیا ہے، یہ بحری جہاز اسرائیل کیلئے رسد کا سامان لے جارہا تھا جسے یمنی فورسز نے میزائلز اور ڈرون سے نشانہ بنایا، ابھی تک بحری جہاز کے عملے کے متعلق درست اطلاعات موصول نہیں ہوسکیں ہیں، یمنی فوج کی کارروائی اُس کے بعض لانچرز پر امریکی فضائی حملے اور دو ہفتے قبل تیل کی تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کے بعد کیا یہ یمن کی خلیج عدن میں پہلی کارروائی ہے، یمنی فوج کے ترجمان یحییٰ سریع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے اتوار کو امریکہ کا ایک جاسوس ڈرون طیارہ مار بھی گرایا ہے، یمنی فوج نے چند تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں پہاڑی علاقے میں ایک ڈرون کا ملبہ پڑا ہوا نظر آ رہا ہے، یمن کی جانب سے دو ہفتوں تک بحیرہ احمر کی سمندری راہداری میں کوئی بھی حملہ نہ کرنے کی کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی، غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ یمن کے حملوں میں اچانک کمی آگئی تھی تاہم اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے کمانڈر فواد الشکری اور تہران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد یہ یمن کی پہلی کارروائی بڑی کارروائی ہے، گروٹون نامی یہ بحری جہاز متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ سے روآنہ ہوا تھاکنٹینر شپ گروٹون کے یونانی انتظامیہ نے حملے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا، یمن کے قریب سمندری حدود میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے جواب میں یمن کے فوج لگ بھگ 70 بحری جہازوں کو میزائلوں اور ڈرون سے نشانہ بنا چکی ہے، ان کے حملوں میں اب تک چار سیلر ہلاک بھی ہوئے ہیں،
یمن کے حملوں میں اب تک دو بحری جہاز ڈوب چکے ہیں جب کہ ایک جہاز پر انہوں نے قبضہ کر لیا تھا اور اسے یمن لے گئے تھے، امریکہ کی قیادت میں جہاز رانی میں مصروف میری ٹائم فورس نے حوثیوں کے کئی میزائل اور ڈرون تباہ بھی کیے ہیں، یمن نے کہا ہے کہ وہ ان بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جن کا اسرائیل، امریکہ یا برطانیہ سے کسی بھی قسم کا تعلق ہے، یمن کا کہنا ہے کہ وہ بحری جہازوں پر اس وقت تک حملے جاری رکھیں گے جن تک اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جاری جنگ کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، یمن کی فوج نے ڈرون اور میزائلوں سے 2000 کلو میٹر دور موجود اسرائیل کو نشانہ بنایا اور تل ابیب میں امریکی سفارتی مشن کے نزدیک عمارتوں کو نشانہ بناکر تل ابیت کی غاصب حکومت کو مزاحمتی طاقت باور کرادی، 19 جولائی کو یمن کے ڈرون حملے میں اسرائیل کے شہر تل ابیب میں ایک یہودی ابادکار ہلاک اور 10 دیگر زخمی ہوئے تھے، اس حملے کے بعد اسرائیل نے یمن میں تیل اور بجلی فراہم کرنے والی عمارتوں اور تنصیبات پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں چھ یمنی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے تھے، یمن کی جانب سے یہ حملے ایسے موقع پر کیے جا رہے ہیں جب غزہ میں جاری جنگ کو 10 ماہ مکمل ہو گئے ہیں اور اسرائیل نے جنگ بندی کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہوئے حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار اسماعیل ہنیہ کو تہران میں جبکہ وہ ایران کے سرکاری مہمان تھے شہید کردیا، جس نے خطے میں پہلے سے موجود بحران کو آگ کے شعلوں میں بدل دیا تہران اور حزب اللہ کو یوں تو مغربی ممالک بالخصوص امریکہ ترغیبات آفر کرکے اِن کے جوابی حملوں کی شدت کو کم کرانے کی سرتوڑ سفارتی کوشش کررہا ہے اور دوسری طرف امریکہ کی جانب سے تل ابیب کے دفاع کیلئے مشرق وسطیٰ میں جنگی اقدامات نے مزاحمتی تحریکوں کو مشتعل کردیا ہے، یمن کا پیر کی صبح کیا جانے والا حملہ اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے مغرب کی ترغیبات کو مسترد کردیا ہے، امریکہ کی انٹیلی جنس اداروں نے واشنگٹن کو بتادیا ہے کہ حزب اللہ تل ابیب اور حیفہ بندرگاہ کو نشانہ بناسکتی ہے جبکہ حزب اللہ سمیت مزاحمتی تحریکوں کے نشانہ پر اسرائیلی کی ایٹمی تنصیبات بھی ہیں، تل ابیب سمیت مغربی انٹیلی جنس اداروں کو ایسی ویڈیو پہنچائی گئی ہیں جس میں اسرائیل کی سکیورٹی بریچ کرتے ہوئے حساس تنصیبات کی ویڈیو بنائی گئی ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع میں شدت کے بعد حماس نے سوموار کو درجنوں راکٹوں سے ہیبرون سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے خبردار کیا ہے کہ ایرن اور ایرانی حمایت یافتہ مزاحمتی گروہ حماس، حشد الشعبی اور انصار اللہ، حزب اللہ سمیت خطے میں موجود دیگر گروپس 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران اسرائیل پر حملہ کرسکتے ہیں، تاہم واشنگٹن کے پاس یہ اطلاعات نہیں ہیں کہ حملہ کس وقت اور کس طرح کیا جائے گا، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک کانفرنس کال میں جی سیون کے نمائندوں کو بتایا کہ ایران اور حزب اللہ پیر کے روز اسرائیل پر حملہ کرسکتے ہیں، امریکی وزیرخارجہ دوٹوک انداز میں واضح کردیا کہ امریکا کا ماننا ہے کہ ایران اور حزب اللہ دونوں بدلہ لیں گے اور اِن حملوں سے اسرائیل کی سکیورٹی کمپرومائس ہوگی تاہم واشنگٹن کے پاس یہ اطلاعات نہیں ہیں کہ حملہ کس وقت اور کس طرح کیا جائے گا، امریکی وزیر خارجہ نے جی سیون کے ہم منصبوں کو بتایا کہ امریکا ایران اور حزب اللہ کو اپنے حملوں کو محدود کرنے اور کسی بھی اسرائیلی ردعمل کو روکنے کے لئے قائل کرکے کشیدگی کم کرنے کیلئے پرامید ہے، انہوں نے جی سیون کے وزرائے خارجہ کو بھی تینوں ممالک پر سفارتی دباؤ بڑھانے پر زور دیا، مشرق وسطیٰ میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال اور کشیدگی کے پیش نظر امریکا و برطانیہ سمیت مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور اردن نے بھی اپنے شہریوں کو فوری طور پر لبنان چھوڑنے کا حکم دیا ہے لیکن یہ اٹل ہے کہ تل ابیب کو اپنے کئے کی سزا ضرور ملے گی جس کی ابتدا پیر کو خلیج عدن میں یمن کے حملے سے شروع ہوچکی ہے، اس وقت اسرائیل کی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے اگر اسرائیل نے ردعمل ظاہر کیا تو ایک عظیم جنگ کا آغاز ہوجائیگا۔