اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے منگل کو بلوچ لاپتہ طلبہ کیس میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر نہیں بلکہ ان کے ماورائے عدالت کام پر اعتراض ہے، منگل کو جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے لاپتہ بلوچ طلبہ کے کیس کی سماعت کی، جس کے آغاز پر اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ کابینہ کے اگلے دو اجلاسوں میں اٹھایا جائے گا، انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بنائی گئی کمیٹی میں انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کو تبدیل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی میں ڈائریکٹر جنرل کی سطح سے نیچے کے لوگ شامل کریں تاکہ کوآرڈینیشن میں آسانی ہو، اس معاملے کو اگر حل نہ کیا تو مسائل بڑھیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کی کاوشوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں، یہ ایک کیس نہیں ہے کہ اس پر آرڈر کریں اور بات ختم ہو جائے، الزام ہے کہ بہت سے لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہوتے ہیں، وہ کھاتے پیتے بھی ہوں گے، خرچ سرکاری خرانے پر آتا ہوگا؟ کیا ایجنسیوں کے فنڈز کا کوئی سالانہ آڈٹ بھی ہوتا ہے؟
جسٹس کیانی نے مزید کہا کہ اس ملک نے دہشت گردی میں 70 ہزار جانیں گنوائی ہیں، کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ صحافی ہو یا پارلیمنٹیرین وہ دہشت گردوں کو سپورٹ نہیں کر رہا، ایجنسیوں کے کام کرنے کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا، ہم نے پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کو مؤثر بنانا ہے، یہی تین ادارے ہیں جنہوں نے تفتیش کرنی ہوتی ہے، باقی ایجنسیاں ان کی معاونت کر سکتی ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاست کیلئے ہمدردی دکھانی پڑے گی، ہماری معیشت بہت نیچے جا چکی ہے، سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کی گذشتہ روز کی گئی ایک پریس کانفرنس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو پریس کانفرنس کرتا ہے، کرتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پیر کو وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس میں لاپتہ شاعر احمد فرہاد کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر سکے کے دونوں رخ دیکھنے چاہییں، ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے کہا کہ سیکرٹریز مطمئن نہیں کریں گے تو وزیراعظم اور پوری کابینہ کو یہاں بٹھائیں گے، یہ طریقہ ہمیشہ غیرمناسب رہا ہے اور وقت سے پہلے اتنی سخت باتیں ایک سانس میں کہہ دینا عدلیہ کے شایان نہیں ہے، سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے اٹارنی جنرل کو سوالنامے کے جوابات آئندہ سماعت پر جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی۔