جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے بجلی کی زائد قیمتوں، آئی پی پیز اور مہنگائی و ٹیکسز کے خلاف دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب عوام کے سروں سے پانی گزر چکا، فوج، سیاست دانوں، ججوں، بیوروکریٹس کو اپنی مراعات چھوڑنا ہوں گی، امیر جماعت اسلامی نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں رات گئے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پریس کانفرنسوں کے بجائے بااختیار کمیٹی بنائے جو جماعت اسلامی کی کمیٹی سے مذاکرات کرے لیکن جب تک یہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے جماعت اسلامی کا دھرنا جاری رہے گا، انہوں نے کہا کہ ہم نے دھرنا اس لئے دیا ہے کہ پاکستان میں پانی سروں پر سے گزر گیا ہے، تنخواہ دار آدمی کو برباد کردیا گیا ہے، غریب آدمی کو پہلے ہی فارغ کردیا ہے، مڈل کلاس لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے آخری ہچکیاں لے رہے ہیں اور اب تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ بجلی کے بلوں کے سبب بڑے بڑے تاجر اپنے کارخانہ جات بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ لوگ اپنے گھر کی چیزیں بیچ بیچ کر بجلی اور گیس کے بل ادا کررہے ہیں، اس وقت ہر کیٹیگری کے کرائے کے گھر میں کرایہ کم اور بجلی کا بل زیادہ ہے اور اس صورتحال میں ہمیں موجودہ حکومت کی کوئی ساکھ نہیں ہے اس لئے کہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہیں عوام نے ووٹ نہیں دیئے بلکہ انہیں زبردستی قوم پر مسلط کیا گیا ہے
ہمیں یہ بتاؤ کہ جب حالات یہ ہیں تو تم نے اپنے انتظامی اخراجات میں 25 فیصد اضافہ کیوں کیا ہے، تم اپنی مراعات چھوڑنے پر کیوں تیار نہیں ہو، فوج، بیوروکریسی، ججوں اور سیاستدانوں میں ہر ایک طبقے کی بجلی مفت ہے، گیس فری، پیٹرول فری، گاڑی فری اور رہائش بھی فری اور مصیبت غریب عوام پر ڈالتے ہو، اب انہیں اپنی مراعات چھوڑنی پڑیں گی، حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ آئی پی پیز میں 80 فیصد کمپنیاں پاکستان کے لوگوں کی ہیں، یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ یہ بیرونی کمپنیاں ہیں اس لئے ہم ان سے دوبارہ بات نہیں کر سکتے، اس میں حکومت میں شامل خاص خاص لوگوں کی کئی کئی کمپنیاں ہیں، ہو سکتا ہے کہ کل میں ایک ایک کمپنی اور اس کے مالک کا نام بھی آپ کو بتاؤ گا، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ چند صنعت کار مسلم لیگ(ن) میں بھی ہیں، پیپلز پارٹی میں بھی ہیں، انہوں نے ہزاروں ارب روپے پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی نچوڑ کر ہم سے لے لی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایک کمپنی ایسی ہے جس کا ایک یونٹ 750روپے کا پڑتا ہے، ایک کا یونٹ 150 تو دوسرے کا 300 کا پڑتا ہے، ایک کمپنی کو سال میں 28 ارب روپے کی ادائیگی ہوئی اور اس نے ایک میگا واٹ بجلی بھی نہیں بنائی، ایک کا 50میگا واٹ کا پلانٹ 10فیصد صلاحیت پر چل رہا ہے، باقی پیسے ہم ادا کررہے ہیں۔