عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی حکومت کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 7 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کرلیا ہے، آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جورجیوا کی زیر صدارت ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان کو قرضہ منظور کرنے کا معاملہ ایجنڈا سر فہرست تھا، وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان کو 30 ستمبر تک 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط ملنے کا امکان ہے، قرض پروگرام منظوری کے بعد دوسری قسط بھی اسی مالی سال مل جائے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض 5 فیصد شرح سود سے کم پر ملے گا، آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر اسٹریٹجک کمیونیکیشنز جولی کوزیک نے رواں ماہ کے اوائل میں واشنگٹن میں صحافیوں کو آگاہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ترقیاتی شراکت داروں سے ضروری مالی اعانت کی فراہمی کی یقین دہانی کے بعد بورڈ کا اجلاس طلب کرئیگا، پاکستان کے وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی جانب سے سات ارب ڈالرز کی منظوری پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی اصلاحات کا نفاذ تیزی سے جاری ہے، بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ خوش آئند اور معاشی ٹیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت سے آمدنی میں اضافے کیلئے ٹیکسز میں اضافے کیساتھ ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرایا، جس کی باعث مہنگائی نے پاکستانی عوام کی کمر توڑ دی بجلی اور گیس میں غیر حقیقی اضافے نے صرف غریب کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ مسلمان معاشرہ ہونے کے باوجود موجودہ حکومت کے دور میں خوکشیوں میں اضافہ کا نیا ریکارڈ بنا، ناقدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سرکاری اخراجات میں کمی کی شرط عائد کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کرنے کی شرط عائد کرتے ہیں جو پاکستانی معیشت کی بربادی کا سبب بن جاتے ہیں مثلاً بجلی اور گیس کی قیمتوں میں افزائش کا براہ راست منفی اثر پاکستان کی ایکسپورٹ انڈسٹری کو پہنچتا ہے جو زرمبادلہ بڑھانے کا ایک اہم سبب ہے اور یوں جاری اخراجات میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے، اس طرح آئی ایم ایف کا بچھائے ہوئے جال میں پاکستانی عوام بے آب مچھلی کی طرح تڑپتے رہتے ہیں جبکہ حکمران طبقہ جن میں سیاستدان، سول بیوروکریسی اور فوج کے اعلیٰ افسران شامل ہیں، عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی بینکوں کے قرضوں پر اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرتے ہیں۔