اسرائیلی وزیر خزانہ بزالیل سموترچ نے اسرائیلی اسمبلی کو ستمبر 2024 میں بتایا تھا کہ فلسطینیوں اور لبنان کے خلاف جنگ اسرائیلی تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ ہے، انھوں نے کہا تھا کہ جنگ کا خرچہ 54 ارب سے 68 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے، اسرائیل کی جانب سے لبنان پر بمباری اور پھر جنوبی لبنان پر زمینی حملے کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف میزائل حملے اس قیمت کو مذید بڑھایں گے، برطانیہ کی شیفلیڈ ہالم یونیورسٹی کے ماہر معیشت ڈاکٹر امر کا کہنا ہے کہ ’جنگ میں وسعت کے بعد لاگت کا تخمینہ 93 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے اگر یہ جنگ 2025 میں بھی جاری رہتی ہے، بینک آف اسرائیل نے حکومتی بانڈز کی فروخت میں اضافہ کیا ہے تاکہ جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے قرضہ لیا جا سکے، اسرائیل ملک کے اندر اور باہر بھی بانڈز فروخت کرتا ہے جن میں بیرون ملک مقیم یہودیوں کیلئے خصوصی بانڈز شامل ہوتے ہیں، تاہم بینک آف اسرائیل کے اعداد و شمار سے علم ہوتا ہے کہ اب بیرون ملک رہنے والے یہودی اور دیگر سرمایہ کار اسرائیلی حکومت کے بانڈز خریدنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، اگست 2024 کے آغاز سے تین بین الاقوامی مالیاتی کریڈٹ ایجنسیوں، موڈیز، فچ اور اسٹینڈرڈ، نے اسرائیلی حکومت کے قرضوں کی ریٹنگ میں کمی کی ہے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے ماہر معیشت اور بینک آف اسرائیل کے سابق گورنر پروفیسر کرنیٹ فلگ کہتی ہیں کہ اسرائیلی حکومت تقریبا 10 ارب ڈالر تک ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور ساتھ ساتھ نئے ٹیکسوں پر غور کر رہی ہے، جس کا نتیجہ اسرائیل میں پہلے سے موجود سیاسی تقسیم بڑھے گی اور عام اسرائیلی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوسکتے ہیں، اسکا ایک خالص نقصان نیتن یاہو کی حکومت کو پہنچے گا کیونکہ اس حکومت کے اتحادی ایسا نہیں چاہیں گے، گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل میں کئی کمپنیوں کو عملے کی کمی کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ان کی کاروباری صلاحیت اور پیداوار متاثر ہوئی، متعدد کمپنیوں کو اسرائیل میں کارروبار بند کرنا پڑے ہیں، بینک آف اسرائیل کے سابق گورنر پروفیسر کرنیٹ فلگ نے کہا کہ یہ جنگ سے زیادہ عرصے تک چلی ہے اور ابھی اس کے ختم ہونے کا وقت مقرر نہیں کرسکتے، اسرائیل کی اس طویل ترین جنگ نے آبادی کے بڑے حصے کو متاثر کیا ہے جس سے معیشت کی بحالی کا عمل کمزور اور زیادہ طویل ہو سکتا ہے۔