تحریر: محمد رضا سید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرائیں گے اور ہندوستان نے بظاہر ثالثی کو قبول کرتے ہوئے پاکستان پر اپنی فوجی جارحیت بند کردی ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ہندوستان اپنے اُس روایتی مؤقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے، جس کے مطابق پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی پر مبنی مسائل کو صرف دو طرفہ مذاکرات سے حل کیا جانا چاہیے، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان فوجی حملوں کا ایک سلسلہ، جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کو ایک وسیع جنگ کے قریب لے آیا تھا۔ جوہری تصادم کا خطرہ حقیقت بنتا دکھائی دے رہا تھا کیونکہ پاکستان نے 10 مئی 2025 کو نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس طلب کرلیا تھا، جنگ اس وقت رکی جب عالمی طاقتوں نے مداخلت کی اور پاکستان نے یہ اجلاس منعقد نہیں کیا، واضح رہے کہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور اسٹریٹجک اثاثوں کی نگرانی کرنے والا اعلیٰ ترین سول و عسکری ادارہ ہے۔ اجلاس ایسے وقت طلب کیا گیا جب پاکستان نے آپریشن بنیان المرصوص کے تحت ہندوستان کے خلاف جوابی کارروائی شروع کردی تھی اور اُس کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ اس سے قبل ہندوستان نے آپریشن سندور کے تحت پاکستانی علاقوں پر حملے کیے تھے، جنھیں ہندوستان نے دہشت گردی کے مراکز قرار دیا تھا تاہم ان حملوں میں ہندوستان کو مطلوب کوئی ایک بھی ملزم ہلاک نہیں ہو بلکہ بے گناہ افراد، جن میں بچے اور خواتین شامل تھیں مارے گئے۔
پاکستان کی جوابی کارروائیوں نے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا، اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا میں ابھرتے ہوئے تنازع پر ثالثی کی پیشکش کی، جسے دونوں ملکوں نے قبول کرتے ہوئے سیزفائر پر رضامندی ظاہر کی، بظاہر دونوں ممالک کی قیادت نے باہمی تنازعات کو امریکی ثالثی یا سہولت کاری کے تحت حل کرنے پر اتفاق کیا ہے، البتہ، ہندوستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے صدر ٹرمپ کی ثالثی کو سرکاری طور پر رد کردیا ہے، دراصل ہندوستان مسئلہ کشمیر کے تناظر میں لفظ ثالثی کی گہرائی سے خوفزدہ رہتاہے تاہم دنیا میں یک قطبی نظام قائم ہونےکے بعد ہندوستان تاریخی طور پر واشنگٹن کے احکامات کو غیر معمولی اہمیت دیتا رہا ہے اور موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ ہندوستان نے واشنگٹن سے رجوع کیا اور فائربندی کو تسلیم کیا، یہ دونوں ممالک کیلئے ایک خوش آئند عمل تھا، جس سے عوام کو سکون ملا، پاکستان نے جنگ بندی میں سہولت کاری پر امریکا اور صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا تاہم، ہندوستانی فوج نے کہا ہے کہ اگر اسے خطرہ محسوس ہوا تو وہ دوبارہ پاکستان پر حملہ کرسکتی ہےجبکہ پاکستانی فوج نے بھی ملک کی خودمختاری کی کسی بھی خلاف ورزی کے خلاف سخت ردعمل دینے کے عزم کا اظہار کیا ہےلیکن فی الحال کسی بڑی جنگ کا اندیشہ ختم ہوچکا ہے۔
مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے ایک علاقائی جوہری فلیش پوائنٹ کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہےاور عالمی طاقتیں اس بابت شدید تحفظات رکھتی ہیں، پاکستان اور ہندوستان مسئلہ کشمیر پر دو باقاعدہ جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن اب دونوں ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں، صدر ٹرمپ نے ہفتے کے روز یہ خبر بریک کی کہ دونوں ممالک امریکی سفارتی ثالثی کے بعد لڑائی روکنے پر متفق ہو گئے ہیں، اتوار کے روز انہوں نے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کام کریں گے۔ ان کے اس بیان نے ہندوستان میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بننے کا موقع فراہم کیا۔ ہندوستانی قائدِ حزبِ اختلاف راہول گاندھی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت اس صورتِ حال سے کس طرح نمٹتی ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ منقسم کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے، جسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے، صدر ٹرمپ کی پیشکش کو پاکستان کی ایک سفارتی فتح قرار دیا گیاکیونکہ ہندوستان مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ سمجھتا ہےلیکن اس کے حل کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کرتا یاد رہے کہ پاکستان نے دو طرفہ سطح پر مسئلہ کشمیر کے متعدد حل تجویز کیے ہیں، جن پر ہندوستان نے مذاکرات بھی کیے لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا لہٰذا اس صورتحال میں مؤثر ثالثی کی ضرورت بدستور موجود ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ غیر رسمی جنگ کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر عوامی سطح پر ہونے والی گفتگو ایک قابلِ تشویش امر ہے، عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس فلیش پوائنٹ مسئلے کا پُرامن حل نکالیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی اور مستقل مقصد مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی تنازع کی حیثیت میں زندہ رکھنا ہے، صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ کے طور پر سنجیدہ لینا، اس کے حل کی جانب ایک اہم پیش رفت ہو سکتی ہے کشمیر کا تنازع محض پاکستان اور ہندوستان کا نہیں، نہ صرف جغرافیائی سیاست یا سفارت کاری کا معاملہ ہے، بلکہ یہ کشمیری عوام کی بقا اور امن سے براہِ راست جڑا ہوا مسئلہ ہے۔
منگل, جولائی 1, 2025
رجحان ساز
- ایران اسرائیل کی بارہ زورہ جنگ، مسلم اتحاد کی مثالی صورتحال کے خلاف تل ابیب کا مذموم منصوبہ
- جو شخص بھی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو دھمکی دیتا ہے وہ خدا کا دشمن ہے، شیعہ مرجع کا فتویٰ
- ٹرمپ کی تجارتی جنگ 9 جولائی آخری دن ہوگا امریکی صدر نے محصولات نافذ کرنے کا اعلان کردیا
- جرمن وزیر خارجہ اسرائیل میں تباہ شدہ عمارتیں دیکھ کر غم زدہ تل ابیب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا
- اسرائیلی فوج غزہ میں غیر معمولی بڑی فوجی کارروائی کی تیاری کررہی ہے 5 عسکری بریگیڈز متحرک
- امریکہ نے حملہ کرکے سفارتکاری و مذاکرات سے غداری کی فی الحال مذاکرات نہیں ہوسکتے، ایران
- غاصب اسرائیل نے آذربائیجان کی فضائی حدود کو حملہ آور اور مائیکرو جاسوس ڈرونز کیلئے استعمال کیا؟
- امریکہ نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز حملے بند کرنے کی درخواست کی تھی، میجر جنرل عبدالرحیم