تحریر: محمد رضا سید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ظہرانے پر مدعو کیا اور دونوں کے درمیان مشرقی وسطیٰ کی صورتحال سمیت مختلف امور پر بات چیت ہوئی، وائٹ ہاؤس میں لنچ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے دورہ کرنے کیلئے پاکستانی فوج کے سربراہ کا شکریہ ادا کیا اور بھارت کے ساتھ مزید فوجی کشیدگی کو روکنے میں عاصم منیر کے کردار کا اعتراف بھی کیا، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عاصم منیر سے ملنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے میں نے جنگ روکنے کیلئے انہیں شکریہ ادا کرنے کیلئے مدعو کیا تھا، وہ جنگ بندی کو محفوظ بنانے میں مدد کیلئے تعریف کے مستحق ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں عاصم منیر کی میزبانی ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا جارہا ہے، ظہرانے پر ہونے والی یہ میٹنگ اپنی نوعیت کی ایسی پہلی ہے، جب کسی امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے سویلین حکام کی موجودگی کے بغیر ہی فوجی سربراہ کی میزبانی کی ہو، مانا جاتا ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں پر فوج کا اثر و رسوخ ہی کام آتا ہے اور اسی لئے فوجی سربراہ کی اہمیت زیادہ ہے تاہم پاکستانی تجزیہ کاروں کی ایک تعداد اس ملاقات کو ایران پر اسرائیلی حملے اور امریکی دھمکیوں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، یہ دیکھنے کیلئے درست عینک نہیں ہے ہمیں پاکستان کے آرمی چیف پر مکمل اعتماد رکھنا ہوگا موجودہ آرمی چیف اسلام پسند ہیں وہ کیوں ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف امریکہ یا اسرائیل کی مذموم سازش کا حصّہ بنیں گے، فلیڈ مارشل جنرل عاصم منیر دنیا بھر میں موجود متشدد رویوں کے خلاف بات کرچکے ہیں، وہ یہودی زیر اثر سوشل میڈیا کو ناسور قرار دے چکے ہیں وہ ہرگز اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے البتہ پاکستان کے سیاسی رہنما میاں نوازشریف نے اپنے تمام ادوار میں اسرائیل وفود بھیجے ابھی حال میں ہی غیر معروف صحافیوں کا گروپ تل ابیب اور اسرائیل کے دیگر شہروں کے دورے پر تھا جس کی متحدہ عرب امارات نے ایک پاکستانی سیاسی شخصیت کی ایماء پر سہولت کاری کی تھی، پاکستان کے ایک جلاوطن معروف تجزیہ کار ڈاکٹر معید پیزادہ نے اس ملاقات پر اہم سوالات اُٹھائے ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران میں رجیم چینج کرنے کے اپنے دیرینہ منصوبے میں پاکستان کو شامل کرنا چاہتا ہے، یاد رہے اس سے قبل جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں پاکستان میں ایرانی انقلابی حکومت کے باغیوں کو اقوام متحدہ کی چھتری تلے ملک میں پناہ دی گئی تھی، جس کے خلاف ایران کی سکیورٹی فورسز نے پاکستان کے شہروں کوئٹہ اور کراچی میں بڑے پیمانے پر حملے کئے تھے تاہم ایرانی اپوزیشن رہنما مسعود رجاوی اس حملے میں ہلاک نہیں ہوسکے تھے جو فرانس میں اپنی طبی موت کا شکار ہوئے، ایران میں بعض حلقوں کی جانب سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ایران مخالف مسلح گروہ جو ایرانی بلوچستان اور ایران کے مذہبی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں انہیں پاکستان کی سرزمین میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں، اسی طرح پاکستان بھی گذشتہ گئی سالوں سے ایران میں پاکستانی بلوچستان کے مسلح باغیوں کی کمین گاہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ سال دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی سرزمین پر مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا، اس پیشرفت کے باوجود دونوں حکومتیں اِن الزامات بری الزمہ رہتی ہیں لیکن پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ ایران میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کی ماضی میں ایسی ناخوشگوار سرگرمیوں میں پاکستان ملوث رہا ہے خیال رہے عمران خان گذشتہ دو سالوں سے اڈیالہ جیل میں سخت حالات میں قید کاٹ رہے ہیں، عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ انہیں پاکستانی فوج نے حراست میں رکھا ہے اور جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں جس کی اب اعلیٰ عدالتوں میں سنوائی نہیں ہورہی ہے، وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کی ملاقات بظاہر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے ضمن میں بتائی جارہی ہے، مئی کے اوائل میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی، جب ہندوستان نے پہلگام حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کردیا تھا۔
پاکستان نے ہندوستان کے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کیا اور پہلگام حملے کی عالمی اداروں کے ذریعے غیر جانبدارانہ اور شفاف تفتیش کی پیش کش کی تھی، تاہم جب بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان نے بھی نئی دہلی کو منہ توڑ جواب دیا اور اس طرح دونوں ملک ایک بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اُس نے صورتحال کی سنگینی کا نوٹس لیا اور بات چیت اور تحمل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فائر بندی کرا دی تھی، جو اب بھی برقرار ہے تاہم ہندوستان ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کرتا ہے اور اب بھی جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے جبکہ دونوں ملکوں کے تعلقات ابھی بھی کشیدہ ہیں، اس پس منظر میں آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات کے بعد امریکی صدر نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی طاقتیں ہیں، ان کا کہنا تھا ہم پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت کررہے ہیں۔ دونوں ممالک (بھارت، پاکستان) کی قیادت واقعی قابل تعریف ہے، جب صدر ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ وہ اس ملاقات سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا کہ میں نے جنگ رکوا دی میں پاکستان سے پیار کرتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ (بھارتی وزیراعظم) مودی بھی ایک لاجواب آدمی ہیں، میں نے کل رات ان ( مودی) سے بات کی تھی، ہم بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، صدر ٹرمپ کے متذکرہ جملے حقیقت کے برعکس لگ رہے تھے اگر وہ پاکستان سے تجارتی معاہدہ کے خواہشمند ہیں تو انہیں پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر تجارت کو لنچ کرانا چاہیئے تھا، صدر ٹرمپ ہندوستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکی ثالثی پر آمادہ نہیں کرسکیں ہیں اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ ہندوستان اُن کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے والا نہیں ہے، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم کو وہ پاکستان کے آرمی چیف کے سامنے بیٹھا سکیں، صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف کو کسی اور ایجنڈہ کے تحت مکھن لگایا جارہا ہے۔
اب ذرا اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان، ایران کے خلاف کسی امریکی مذموم منصوبے کا حصّہ بن سکتا ہے؟ تو جواب ہے پاکستان فرنٹ پر نہیں کھیلے گا، اسے پاکستان کی مجبوری سمجھی جائے یا اندرونی اور بیرونی دباؤ، روس اور چین کے علاوہ پاکستانی عوام کی واضح اکثریت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی اور یہ بات واشنگٹن کے علم میں زیادہ بہتر انداز میں ہے، پاکستان کی حقیقی مقتدرہ بری فوج کی اعلیٰ ترین قیادت ہے جو اپنے پڑوسی ملک کے خلاف کسی خطرناک کوشش کا حصّہ نہیں بنے گی، پاکستان نے ماضی میں ایرانی عوام کی شاہ مخالف تحریک کے دوران شہنشاہ ایران کی کھل کر حمایت کی تھی اور جب پاکستان کو 2 فروری 1979ء کو یقین ہوگیا کہ ایران میں انقلابی حکومت برسراقتدار آجائے گی تو اسلام آباد نے فوراً یوٹرن لیا اور واشنگٹن کی سوچ کے برخلاف امام خمینیؒ کی تحریک کی حمایت کردی، یہ یقین رکھا جائے کہ پاکستان میں سیاسی اور فوجی طاقت تہران میں برسراقتدار حکومت کے خلاف کسی عملی اقدام میں شامل نہیں ہوگی تاہم کچھ ایسے ایریاز ہیں جہاں پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ آنکھیں موند کر امریکہ کو مدد فراہم کرسکتی ہے، یہاں ہم ایران میں رجیم چینج کا جائزہ لیتے ہیں تو ایران کے عوام فی الوقت رجیم چینج کا سوچنے کے بجائے اسرائیل کے خلاف متحد ہیں، ایران پر اسرائیلی حملوں سے قبل ایران کے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کی مقبولیت کی سطح صرف 35 فیصد تھی جو 17 جون 2025ء کو بڑھ کر 70 فیصد سے زیادہ ہوچکی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ امریکہ فوجی کارروائی کے ذریعے ایران میں رجیم چینج نہیں کرسکتا، چاہے پاکستان فوجی اڈے دے یا نہیں دے، پاکستان کی واضح اکثریت کو اُمید ہے کہ اُن کا ملک اسرائیل سے برسرپیکار ایران کے خلاف امریکہ کی کسی مذموم سازش کا حصّہ بننے گی۔
With every new follow-up
Subscribe to our free e-newsletter
منگل, جولائی 1, 2025
رجحان ساز
- ایران اسرائیل کی بارہ زورہ جنگ، مسلم اتحاد کی مثالی صورتحال کے خلاف تل ابیب کا مذموم منصوبہ
- جو شخص بھی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو دھمکی دیتا ہے وہ خدا کا دشمن ہے، شیعہ مرجع کا فتویٰ
- ٹرمپ کی تجارتی جنگ 9 جولائی آخری دن ہوگا امریکی صدر نے محصولات نافذ کرنے کا اعلان کردیا
- جرمن وزیر خارجہ اسرائیل میں تباہ شدہ عمارتیں دیکھ کر غم زدہ تل ابیب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا
- اسرائیلی فوج غزہ میں غیر معمولی بڑی فوجی کارروائی کی تیاری کررہی ہے 5 عسکری بریگیڈز متحرک
- امریکہ نے حملہ کرکے سفارتکاری و مذاکرات سے غداری کی فی الحال مذاکرات نہیں ہوسکتے، ایران
- غاصب اسرائیل نے آذربائیجان کی فضائی حدود کو حملہ آور اور مائیکرو جاسوس ڈرونز کیلئے استعمال کیا؟
- امریکہ نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز حملے بند کرنے کی درخواست کی تھی، میجر جنرل عبدالرحیم
آرمی چیف کو دیا لنچ صدر ٹرمپ کا خرچہ ضائع ہوا پاکستان کسی امریکی منصوبے کا حصّہ بننے نہیں بنے گا
صدر ٹرمپ کے لنچ کے متعلق پریس بریفنگ حقیقت کے برعکس ہے اگر وہ پاکستان سے تجارتی معاہدہ کے خواہشمند ہیں تو انہیں پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر تجارت کو لنچ کرانا چاہیئے تھا