مسلم لیگ(ن) میں واضح گروپ بندی کو کارکنان محسوس کرتے ہیں، گروپ بندی رہماؤں کے درمیان نہیں خاندان کے اندر ہے، ایک گروپ کی قیادت حمزہ شریف اور دوسری کی قیادت مریم نواز کررہی ہیں، مریم نواز نوازشریف کی بیٹی ہیں لہذا اُن کو نمایاں حیثیت ملی ہوئی ہے لیکن میاں نوازشریف کی شخصیت اس گروپ بندی کو مستقل یا واضح کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے، میاں نوازشریف کی زندگی میں اس بات کا امکان نہیں ہے یہ دونوں گروپ آپس میں دست و گریباں ہوں، میاں نوازشریف مخلوط حکومت کی سربراہی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو پھرمسلم لیگ(ن) میں دوسرا بڑا نام شہباز شریف کا ہے، مریم نواز چاہتیں ہیں کہ میاں شہباز شریف کے بجائے وزارت اعظمیٰ کا منصب اُن کے والد سنبھالیں، اسی کشاکش میں میاں شہباز شریف نے وزارت اعظمیی کیلئے خواجہ آصف کے ذریعے اپنا نام پریس کی زینت بنادیا ہے۔
خواجہ آصف مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما ہیں مگر 2024ء کے الیکشن میں اُن کی جیت مشکوک ہے، وہ کسی بھی وقت شکست کا سامنا کرسکتے ہیں، اُن کی جیت کا پروانہ کسی بھی وقت منسوخ ہوسکتا ہے، غیر جابندار ہوکر بیان کیا جائے تو خواجہ آصف اماں جی سے شکست کھا چکے ہیں، سیاست میں اُن کا مقام ختم ہوچکا ہے مگر اس موقع پر وہ شریف خاندان کے اندرونی اختلافات کی خلیج کو بڑھانا چاہتے ہیں، جو نوازشریف کی زندگی میں ممکن نہیں ہے، مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھایا جائے تاکہ وہ طاقتور حلقوں کیلئے مسائل پیدا نہ کرسکیں اور وفاق و پنجاب میں اتحادی حکومت کو تشکیل دیا جاسکے، جسکا وعدہ پیپلزپارٹی سے کیا جاچکا تھا۔