کراچی میں اندرون شہر اور بیرون شہر سے آنے والے رہزنوں کے رحم وکرم پر ہے کوئی ایسا گھرانہ نہیں ہوگا جو پیپلزپارٹی کے پندرہ سالوں کے دوران لوٹ مار کا شکار نہ ہوا ہو، شہر کے امن وامان سے وابستہ رہےہ شخصیت نے بتایا کہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاوہ خیبرپختوانخواہ کے ایک سے زائد گروہ ڈاکیتیوں، اسٹریٹ کرائم، بینکوں سے رقم نکلوانے والے کو لوٹنے اور قتل کرنے کی وارداتوں میں ملوث ہیں، جنھوں نے ساکنان شہر کے امن و سکون کو برباد کردیا ہے، سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق گزشتہ ماہ مارچ کے مہینے میں سی ٹی ڈی نے پوش علاقوں میں ڈکیتیوں میں ملوث دو ملزمان شیر مالک اور عرفان کو گرفتار کیا جن کے خلاف درخشاں اور بوٹ بیسن تھانے میں 36 لاکھ اور 19 لاکھ روپے کی ڈکیتی کے مقدمات درج ہیں،سی ٹی ڈی نے دونوں ملزمان سے مبینہ طور پر 17 لاکھ روپے رشوت وصول کرکے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جبکہ ملزمان سے کسی قسم کی ریکوری نہیں کی گئی اور نہ ہی ساؤتھ زون پولیس سے رابطہ کیا گیا تاکہ ملزمان کے کرمنل ریکارڈ کی مزید جانچ پڑتال کی جاتی، یہ حال ہے ہماری سند پولیس کا ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اندرون سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے نوجوان ورکرز کو عید سے قبل کراچی میں لوٹ مار کیلئے بھیجا گیا ہے، اِن لوگوں کو انتظامیہ اور پولیس میں موجود افراد کی حمایت حاصل ہے جنھیں گزشتہ پندرہ سالوں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا تھا، سندھ پولیس استعداد اور جدید ٹیکنک سے ناواقف اور سیاسی دباؤ کے باعث اسٹریٹ کرائم روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے، سندھ پولیس کے سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والوں کی ڈگریوں کے جعلی ہونے کے الزمات لگتے رہے ہیں، جس کی کبھی مناسب تحقیقات نہیں کرائی گئی، سندھ پبلک سروس کمیشن جو پولیس سمیت سندھ کے سرکاری محکموں میں بھرتی کرنے والا ادارہ ہے اسکی حالت یہ ہوچکی ہے کہ محکمہ تعلیم سندھ میں گریڈ 16 کی اسامیوں کے لئے این ای ڈی یونیورسٹی میں منعقدہ میرٹ ٹیسٹ کا پرچہ آوٹ ہوگیا اور امیداوار کے مشتعل ہونے کے بعد کمیشن نے امتحان منسوخ کردیا، یہ رواں سال فروری کا واقعہ ہے، اسی طرح حیدرآباد میں بھی کمیشن کا تیار کردہ پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، جس پر اُمیدواروں نے احتجاج کیا اور ٹھنڈی سڑک پر دھرنا دیدیا
پیپلزپارٹی کے پندرہ سالہ دور حکومت میں سندھ پبلک کمیشن کے بارے میں کئی اسکنڈلز منظر عام پر آئے مگر کسی بھی اسکینڈل کا منظقی انجام عوام کے سامنے نہیں آسکا ہے، سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کی بنیادی ساکھ پر اعتراضات اٹھائے ہیں، رواں سال ہی سندھ ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس امجد علی شاہ نے اپنے 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے، ہم افسوس کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ ادارے جن کا آزادانہ کردار ہونا ضروری ہوتا ہے، سیاسی وجوہات کی بناء پر آلودہ ہوچکے ہیں، سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین عباسی اور جسٹس امجد علی شاہ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں میرٹ کی پامالی کے حوالے سے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے، عدالت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سندھ کی حکومت نے شفافیت برقرار رکھنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا فاضل ججوں نے میونسپل افسروں، ٹاؤن افسروں اور اسسٹنٹ اکاؤنٹس افسروں کی اسامیوں پر گزشتہ سال کمیشن کی جانب سے کی جانے والی تقرریوں کے مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کو ہدایات جاری کیں کہ کمیشن کے رکن رضوان میمن کے خلاف بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے بارے میں تحقیقات کرائی جائیں اور اس کی رپورٹ دو ماہ میں سندھ ہائی کورٹ کو پیش کی جائے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن نے ہی گزشتہ پندرہ سالوں میں پولیس میں بھرتیاں کیں ہیں،، جب کمیشن کے ایک رکن رضوان میمن جیسے افراد جن پر ہائیکورٹ سنگین بدعنوانی میں ملوث ہونے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیتی ہے تو اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے پبلک سروس کمیشن سندھ حکومت چلانے کیلئے کس قسم کے افراد کو بھرتی کرتی ہے، امن وامان کا براہ راست تعلق پولیس سے ہے اور جب پولیس میں بھرتیاں بدعنوانیوں اور میرٹ کے برخلاف ہوں تو اصلاح احوال کی کوئی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی نے سندھ حکومت کو صوبے میں ایک ماہ میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات کردی، کراچی میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ عقیل احمد عباسی کی صدارت میں امن و امان سے متعلق اجلاس ہوا جس میں ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور دیگر افسران نے الگ الگ بریفنگ دی اور رپورٹس پیش کیں، اجلاس کے دوران چیف جسٹس نے ہدایات جاری کی کہ کوئی بھی کتنا طاقتور ہو رعایت نہ برتی جائے اور امن و امان کو خراب کرنے والوں کو انجام تک پہنچایا جائے، ایک ماہ میں امن و امان یقینی بنایا جائے اور رپورٹ پیش کریں، کراچی میں لوٹ مار میں صرف رمضان المبارک کے دوران ہی خاتون سمیت 13 افراد موت کو گھاٹ اتار دیا گیا ہے جب کہ متعدد شہری زخمی بھی ہوچکے ہیں، سفاک ڈاکو صرف مارچ کے مہینے میں مجموعی طور پر 19 جبکہ رواں سال 52 شہریوں سے جینے کاحق چھین چکے ہیں۔
کراچی میں سال 2023ء میں اسٹریٹ کرائم کے 77 ہزار 744 واقعات میں 100 سے زائد افراد قتل جبکہ 432 زخمی ہوئے ہیں، شہر کے مختلف علاقوں سے 1898 گاڑیاں اور 50 ہزار 601 موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں ہیں، سال 2023 کے دوران اب تک شہریوں سے25 ہزار 234 موبائل فون چھینے گئے مختلف واقعات میں 537 افراد قتل ہوئے، پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2023 میں اغواہ برائے تاوان کے 51 واقعات رپورٹ ہوئے ریکارڈ کے مطابق سال 2023 میں بھتہ خوری کے 137 واقعات رپورٹ ہوئے، یہ صورتحال ہے اُس شہر کی جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، ایسے حالات ہوں گے تو صنعت کار اور سرمایہ کار کیسے اس شہر میں کام کریں گے، پاکستان کی معیشت کو بجلی اور گیس کے بلوں کے بعد امن وامان کا مسئلہ درپیش ہے، کراچی کو سندھ حکومت سنبھالنے میں ناکام رہی ہے، رینجرز بھی اس شہر کو ملک بھر سے آئے ہوئے جرائم پیشہ لوگوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے اور اُسکی ترجیح مینڈیٹ بھی یہ نہیں ہے، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے امن و امان سے متعلقہ محکموں کو بلایا ہے اور امن و امان اور اسٹریٹ کرائم روکنے کی ھدایت کی ہے مگر کیا اچھا ہوتا یہ اجلاس وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بلاتے لیکن کراچی سے حکمرانوں کی دلچسپی پلاٹوں پر قبضہ کرنے سندھ بلڈنگ کی بدعنوانیوں میں اپنا حصّہ حاصل کرنےمیں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔