تحریر: محمد رضا سید
لبنان میں جنگ بندی اور وہاں طویل عرصے سےحکومت سازی میں رکاوٹوں کو ختم کرنے کے دوران امریکہ، فرانس اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں نے اسرائیلی جارحیت کا شکارہونے والے ملک لبنان کی تعمیر نو کیلئے مالی امداد کا وعدہ کیا تھا، اُسے پورا کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن قائم نہیں ہوسکتا، لبنان کی تعمیر نو کو علاقائی کشیدگی سے علیحدہ کرکے دیکھنا بہت بڑی غلط فہمی ہوگی اور لگتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب اس غلط فہمی کا شکار ہوچکے ہیں اوراِن ملکوں کے رویوں سے معلوم ہورہا ہے کہ وہ لبنان کی تعمیرنو پر غیرمشروط پیسہ خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، گزشتہ ہفتے لبنان کے صدر جوزف عون نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا ، یقیناًوہ لبنان کی تعمیرنو کے لئے سعودی عرب کے مالی امداد کے وعدوں پر بات چیت کیلئے ریاض پہنچے تھے مگر ریاض حکومت نے اس بابت کوئی ٹھوس قدم اُٹھانے کے بجائےصدر جوزف عون کومعاشی اصلاحات کا سبق پڑھا کر رخصت کردیا،بیروت میں کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کی خارجہ اُمورکے ڈائریکٹر مہا یحییٰ نے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کی متعلقہ تنظیموں نے اندازہ لگایا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی تعمیر نو اور انسانی امداد فراہم کرنے پر 350 بلین ڈالرخرچ کرنے پڑیں گے، تعمیرنو کے اس عمل میں شام کو بھی شامل کرلیاگیا ہے کیونکہ اب دمشق پر اسرائیل اور ترکی کے حمایت یافتہ مسلح گروہ کا کنٹرول ہے، عالمی اداروں نے جو اندازہ لگایا ہےوہ بہت زیادہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں ممکن ہے اس میں رشوتیں اور کیک بیک بھی شامل ہوالبتہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے اندازہ لگایا ہے کہ صرف غزہ کی تعمیر نو کے لئے کم از کم 40 سے 50 بلین کی ضرورت ہےلیکن سوال وہی ہے کہ اتنی خطیر رقم ادا کون کرئے گا؟۔
عالمی بینک نے لبنان پراسرائیل کی وحشیانہ اور جنگی جرم پر مبنی بمباری کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات کا تخمینہ مختصر اور درمیانی مدت کیلئے 11 بلین ڈالرلگایا ہے، لبنان میں اب بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ خلیجی ریاستیں وعدوں کے مطابق تعمیرنو کے اخراجات کے کم از کم ایک حصے کو پورا کرنے کے لئے قدم بڑھائیں گی تاہم اِن ریاستوں نے امداد کی فراہمی کو لبنان کی اقتصادی اور مالیاتی اصلاحات سے مشروط کیا ہے، سعودی عرب ترقی پسند ریاست بننے کی جانب قدم بہ قدم آگےبڑھ رہا ہے مختلف میدانوں میں میانہ روی جبکہ مغرب کو پیچھے چھوڑنے کی آرزو میں اسلامی اورقبائلی معاشرت سے دور ہورہا ہے مگر اس ملک کی مقتدرہ اب بھی بنیادی قبائلی اور مذہبی و مسلکی تعصبات سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کراسکی ہے،جس کے اسباب سیاسی بھی ہوسکتے ہیں ،ریاض جب تعصب کی عینک لگاکر لبنان کو دیکھتا ہے تو وہاں ایسی قوتوں کا اثر و رسوخ دکھائی دیتا ہے جو نہ صرف دہائیوں سے اسرائیل سے متعلق خلیج فارس کی عرب ریاستوں بالخصوص سعودی پالیسیوں پر معترض رہی ہے بلکہ اسرائیل اور خطے سے متعلق ایرانی پالیسیوں کو ٹو کرتی ہیں لہذا ریاض کو اپنی جیب سے پیسہ نکالنے میں تکلیف ہورہی ہے لہذا لبنان کو اقتصادی اور مالیاتی اصلاحات کا سبق پڑھایا جارہا ہے لیکن کچھ بھی ہو سعودی عرب اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو لبنان اور غزہ کی تعمیر نو کیلئے پیسہ نکالنا ہی پڑےگا بصورت دیگر اس کے سنگین سیاسی مضمرات اِن ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
حزب اللہ کسی قیمت پر لبنان کی تعمیرنو کے آغاز میں تاخیر برداشت نہیں کرئے گی ، اسرائیل کے خلاف جنگ بندی پر رضا مند کرنے کیلئے حزب اللہ کو لبنان کی سلامتی اور یکجہتی کی دوہائیاں دینے والے ملکوں جن میں امریکہ،فرانس اور سعودی عرب شامل تھے اور جن کی عاجزانہ درخواست پرلبنان میں معتبر سیاسی حکومت بنانے کیلئے حزب اللہ اپنی سیاسی اور سماجی پوزیشن سے پیچھے ہٹ کرقربانی کےجذبے کا مظاہرہ کیا تھا وہ سب واپس اپنے مقام پر لانے کی صلاحیت حزب اللہ رکھتی ہے اور یہ یقین رکھا جائے کہ لبنان میں سیاسی عدم استحکام اسرائیل اور سعودی عرب دونوں کیلئے مشکلات پیدا کردے گا، حزب اللہ نے اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق تعمیرنو کا آغاز تو کردیاہے لیکن اس کیلئے بڑے مالی وسائل درکار ہیں، جو سعودی عرب متحدہ عرب امارات، قطر اور مغربی ممالک ہی پورا کرسکتے ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نعیم قاسم نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ ریاست کو تعمیر نو کی کوششوں کی قیادت کرنی چاہیے اگر تعمیر نو کے لئے بیرون ملک سے فنڈز نہ پہنچیں تب بھی ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ عوام کا غم و غصّہ لبنانی حکومت کی طرف مڑجائے گا اور حزب اللہ اس موقع پر عوام کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی، آئندہ سال لبنان میں پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے ہیں لہذا تعمیرنو کا معاملہ تمام فریقین کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہوگا،حزب اللہ اور اس کی اتحادی جماعت امل موومنٹ کے لئے اپنی انتخابی گرفت کو مضبوط بنانے کیلئے تعمیرنو کا معاملہ اہم مسئلہ ہےاور حزب اللہ لبنانی حکومت ٹف ٹائم دے گی ، لبنان کی تعمیر نو کیلئے بیروت کو مالی امداد فراہم کرنیکا وعدہ پورانہیں کیا گیا تو لبنان کیساتھ ساتھ پورا خطہ ایک مرتبہ پھرسنگین سیاسی بحران سے دوچار ہوجائیگا۔