تحریر: محمد رضا سید
اس ماہ کے اوائل میں اسلام آباد میں روسی سفیر البرٹ خوریف نے خبرایجنسی تاس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کریملن پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گرد سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتا ہے جو کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ رہی ہے جبکہ ہندوستان، ماسکو کا کلیدی پارٹنر ہے، خوریف نے کہا کہ روس اس خطرے سے نمٹنے کے لئے اسلام آباد کے عزم پر بھروسہ کرتا ہے اور اس سکیورٹی چیلنج کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعمیری تعاون کو بڑھانے کے لئے پرعزم ہے، اُنھوں نے نائب وزیر خارجہ کی سطح پر دہشت گردی کے خلاف دو طرفہ کوششوں کو مضبوط بنانے کیلئے باہمی مشاورت کو اہم قرار دیتے ہوئے پاکستان میں تعینات روسی سفیر نے دونوں ملکوں کے درمیان معاشی میدان میں کئے گئے معاہدوں اور ایم او یوز پر پیشرفت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معاشی ترقی کے دوطرفہ معاہدوں کو ثمر آور بناکر جنوبی ایشیائی ملکوں کے تنازعات کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے
روس اور پاکستان کے درمیان مال بردار ریلوے کی نقل و حمل مارچ 2025 میں شروع ہونے والی ہے، روسی وزارت ٹرانسپورٹ کے مطابق یہ اعلان تہران میں منعقدہ تیسرے کیسپین اکنامک فورم کے موقع پر دونوں ممالک نے نقل و حمل کے شعبے میں تعاون کے لئے ایکشن پلان پر دستخط کرنے کے بعد کیا گیاہے۔ اس منصوبے میں پاکستان کے ساتھ زمینی ٹرانسپورٹ لنک قائم کرنا ہےکیونکہ روٹ کا ابتدائی مرحلہ ایرانی سرزمین سے گزرے گا، روس پاکستان سے راہداری معاہدہ کرکے بین الاقوامی شمالی، جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور کی توسیع کرنا چاہتا ہے، جس کو روس نہر سوئز کے روایتی تجارتی راستوں کے متبادل کے طور پر ایران اور بھارت کے ساتھ مل کر تیار کر رہا ہے، خارجہ پالیسی کے ماہرین کے مطابق روس اور پاکستان کے درمیان گہرے ہوتے سیاسی اور معاشی تعلقات کوئی تعجب کی بات نہیں ہے!دونوں ممالک کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلقات میں دلچسپی 2014 کے بعد سے مسلسل بڑھی ہے، جو 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ ماسکو کے بعد خاص طور پر زور پکڑ رہی ہے لیکن ماسکو میں بیٹھے ہوئے پالیسی ساز پاکستان کو ایک پیچیدہ سیاسی منظر نامہ رکھنے والے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں مسلسل سماجی و اقتصادی چیلنجز اور ناپائیدار سلامتی بڑے خطرات کے امکانات کو جنم دیتی ہے،جن کے حل ہونے کا امکان نظر نہیں آتے اگرچہ دوطرفہ تعاون کے امکانات امید افزا دکھائی دیتے ہیں لیکن تعلقات کا مستقبل ایک حد تک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، ماہرین چین اور پاکستان کے مشترکہ منصوبے سی پیک پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں، چین، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور عدم رواداری کی فضاء سے نالاں ہیں حالانکہ چین سی پیک منصوبے کو مرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا مگر اس کے نتائج سست رفتاری کا شکار ہوکر دونوں ملکوں کیلئے بوجھ بنتے جارہے ہیں۔
پاکستانی اشرافیہ نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گرد سرگرمیوں کا مقابلہ کررہی ہے جبکہ پاکستان کی موجودہ قیادت خیبرپختونخوا میں بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سےافغان حکام کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا مقابلہ کرنے میں اسلام آباد کے ساتھ تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ کو قرار دیتی ہے، دوسری طرف بلوچستان میں اضافی ہنگامہ آرائی صرف پاکستانی فوج کا درد سر نہیں ہے بلکہ بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) کی مسلح کارروائیاں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں اور انجینئروں کی زندگیوں کیلئے خطرات کا موجب بنتی ہیں ، بی ایل اے نے 2023 اور 24ء میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کیساتھ تعلق بنایا جو منظم اور پُر اثر تخریب کاری پر مبنی کارروائیوں کے ذریعے اپنی ریاست اور دوست ملک چین کیلئےسنگین مسائل پیدا کرچکی ہے، جس نے سی پیک منصوبے کے ثمر کو پاکستانی عوام سے مزید دور کردیا ہے۔
پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھتا جارہا ہے، معاشی سرگرمیاں ماند پڑی ہوئی ہیں حالانکہ 2024ء کا سال پاکستان کے معاشی اشاریئے میں بہتری کے طور پر دیکھا گیا تھا، پاکستان کے معاشی منتظمین آئی ایم ایف کو معاشی مشکلات کا واحد اورفوری حل سمجھتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان بیرونی سرمائے پر بہت زیادہ انحصار کرتاہے کیونکہ ملکی مالی وسائل کو استعمال کرنے کے لئےبابصیرت سیاسی قیادت اور انتظامی اہلیت رکھنے والی سول اور فوجی نوکر شاہی ناپید ہے جوملکی وسائل کوقابل عمل حالات میں تبدیل کرکے پاکستانی عوام کو سہولتیں دے سکے، جولائی 2024 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے 7 ارب ڈالر کے نئے قرضے کا اعلان کیا جو کہ مسلسل اقتصادی اصلاحات پر منحصر ہے، ان اصلاحات میں ٹیکس نظام کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور توانائی کے شعبے میں سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنا شامل ہے، جس نے پاکستان کے 26 کروڑ لوگوں کو غربت کی طرف ڈھکیل دیا ہے،جس سے سماجی تناؤ اور قومی سلامتی کیلئے خطرات بڑھیں گے، روس کیساتھ زمینی تجارت کا راستہ کھلنے سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں بڑھیں گی اور برآمدی مواقعوں میں اضافہ ہوگا، پاکستان کے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان سکیورٹی تعاون کے شعبے میں پیش رفت ہوئی ہےلیکن اقتصادی تعاون میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوئی ہےاسکا قصور پاکستان کے پالیسی ساز افراد اور اداروں کا ہے جنھوں نے روس سے اقتصادی تعلقات کو اخلاص کیساتھ آگے نہیں بڑھایا کیونکہ اِن کی سمجھ کا دائرہ واشنگٹن سے جڑا ہوا تھا جو دور رس نتائج کو نہیں دیکھ سکے ، گزشتہ سال روس پاکستان بین الحکومتی کمیشن برائے تجارت، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی تعاون کے 9ویں اجلاس میں دونوں ممالک کی طرف سے دستخط کیے گئے ایم او یوز توانائی، صنعتی ترقی، لاجسٹکس، تجارت اور تعلیم جیسے شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا دو طرفہ ایم او یوز ٹھوس کاروباری معاہدوں میں تبدیل ہوں گے ، محض خیر سگالی کے اعلانات اور وعدے کسی بھی فریق کے مفادات کو پورا نہیں کرے گا، اگر منصوبہ بند اقدامات عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہتے ہیں تو روس اور پاکستان کے سرکاری حکام کی ملاقاتیں اور مذاکرات مفید ثابت نہیں ہونگی، وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے سب کچھ سکیورٹی پر قربان کرنے سے گریز کریں اور عوام کی بدحالی ختم کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔
With every new follow-up
Subscribe to our free e-newsletter
بدھ, مارچ 12, 2025
رجحان ساز
- جعفر ایکسپریس پر حملہ: مسلح افراد یرغمالیوں کو لیکر پہاڑوں میں روپوش ہوگئے 13 حملہ آور ہلاک
- جعفر ایکسپریس حملہ بلوچ لبریشن آرمی نے 400 مسافروں کو یرغمال بنالیا سکیورٹی ادارے متحرک
- امریکا کیلئے یورپ کے دفاع کی قیمت ادا کرنیکا کوئی مطلب نہیں، نیٹو کا مستقبل خطرات سے دوچار
- اسپین اور اٹلی میں پاکستانی شدت پسند مذہبی تنظیم تحریک لبیک کے خلاف آپریشن گیارہ افراد گرفتار
- امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ اپنے مطالبات مسلط کررہا ہے، آیت اللہ خامنہ ای
- ٹرمپ نے یو ایس ایڈ ذریعے سیاسی مداخلت اور پالیسیاں مسلط کرنے کے بجائے تجارت کو حربہ بنالیا
- مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اہم پیشرفت صدر ٹرمپ کا ایران سے رسمی مذاکرات پر آمادگی کا پیغام
پاکستان اور روس درمیان اقتصادی تعلقات میں پیشرفت سے خطے میں ترقی کی اُمید پیدا ہوسکتی ہے
وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے سب کچھ سکیورٹی پر قربان کرنے سے گریز کرتے ہوئے عوام کی بدحالی ختم کرنے پر توجہ مرکوز کریں