اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو پاکستان بحریہ کے پانچ سابق افسران کی سزائے موت روکنے کے حکم میں توسیع کر دی ہے، ان افسران کو کراچی ڈاکیارڈ پر 2014 میں ہونے والے حملہ کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی، درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار نے کہا کہ وجوہات نہیں بتائی جارہی ہیں کہ سزائے موت کیوں دی گئی؟ یہ کوئی سیکریٹ ایشو نہیں، میرے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ سزائے موت کیوں دی گئی وجوہات بتائی جائیں، جسٹس بابر ستار نے گذشتہ سماعت پر سزائے موت پر عمل درآمد پر حکم امتناع دیا تھا اور پاکستان نیوی سے جواب طلب کیا تھا، آج ہونے والی سماعت میں سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے حکم میں آئندہ سماعت تک توسیع کر دی گئی ہے، عدالت نے گذشتہ سماعت پر چیف آف نیول اسٹاف کا موقف بمع وجوہات سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھی اور کہا تھا کہ بتایا جائے کہ چیف آف نیول اسٹاف کو دستاویزات تک رسائی ریاست کے مفادات کے برخلاف کیوں لگتی ہے؟ پاکستان نیوی کی جانب سے رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی شیئر نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس بابر ستار نے نمائندہ پاکستان بحریہ کمانڈر حامد حیات سے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں میں فیصلہ کر دوں؟ کمانڈر حامد حیات نے ہدایات لینے کیلئے عدالت سے وقت مانگ لیا، عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی، عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت کی تاریخ کا تحریری حکم نامے میں بتائیں گے، سال 2014 میں ہونے والے اس حملہ کے پانچ ملزمان کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سے 2016 میں سزائے موت سنائی گئی تھی، عدالت نے گذشتہ سماعت کے تحریری فیصلے میں سوالات اٹھائے کہ سوال یہ ہے کہ ریاست کے مفاد کو ایک شہری کے حق زندگی سے کیسے بیلنس کرنا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 اے شہریوں کو زندگی جینے کا حق اور فیئر ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں۔