تحریر : محمد رضا سید
اسرائیل غزہ میں عیدالفطر پر بھی بمباری سے باز نہیں آیا، خوف اور بھوک کے شکار فلسطینیوں کے حالات دن بدن تشویشناک ہوتے جارہے ہیں، امریکی اور سعودی منافقت نے اسرائیل کے حوصلے مزید بلند کردیئے ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن ایک منافق انسان کی حیثیت سے دنیا اور اپنی عوام کو رفح پر حملے کی مخالفت کرکے بےوقوف بنارہے ہیں، بائیڈن اس سے قبل ایک انٹرویو میں اپنے آپ کو سب سے بڑا صیہونی قرار دیکر فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرچکے ہیں، امریکی صدر اگر رفح پر اسرائیلی حملے کی پلاننگ کی بظاہر مخالفت کررہے ہیں تو وہ اس وقت اسرائیل کو مکمل شکست سے دوچار ہونے سے بچانا چاہتا ہیں، اسرائیل کے رفح پر ممکنہ حملے کے بعد یقینی طور پر عربوں کی آمر حکومتوں کا اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا خواب چکنا چور کردے گا اور امریکہ یہ نہیں چاہتا ہے کیونکہ اسرائیل کو مزید پالنا امریکی مقتدرہ کیلئے مشکل ہوچکا ہے، وہ عرب حکومتوں میں اسرائیل کو تجارتی رسائی اور سرمایہ کاری کے مواقعے فراہم کراکے اسرائیل کی معیشت کو مستحکم کرکے امریکی انحصار کو کم سے کم کرنا چاہتا ہے، امریکی ٹیکس دہندگان اپنی حکومت سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد کے بارے میں سوال کرنے کی شدت کو بڑھا رہے ہیں، رفح پر اسرائیلی حملہ ایک بڑے قتل عام کو جنم دیگا جو عرب نوجوان کے استعال کو بڑھائے گا، سعودی عرب کے مختلف علاقوں سے نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ہے جو حماس کو اسلحہ اور مالی مدد فراہم کرنے کیلئے اپنی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ایک غیر منظم کوشش میں مصروف تھے، یہی حال مصر اور متحدہ عرب امارات کا ہے، جہان عرب نوجوان ہر گزرتے دن کیساتھ اپنی اپنی حکومتوں پر تنقید بڑھارہے ہیں، اردن میں حالات تشویشناک ہونے کے بعد اس ملک کے بادشاہ نے حماس پر تنقید کی ہے۔
سعودی عرب کے چند نوجوانوں نے ایک خفیہ خطوط جس پر دس ہزار سعودی شہریوں کے دستخط تھے سعودی بادشاہ اور اعلیٰ سعودی حکام کو ارسال کئے ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا کہ فلسطینیوں کی مدد کیلئے فوج بھیجنا مصلحت کے خلاف ہے تو حماس کو کم ازکم اسلحہ اور مالی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے سے سو گنا فوجی اعتبار سے طاقتور ملک اور اس کے پیچھے کھڑی طاقتوں کا مقابلہ کرسکیں، سعودی خفیہ ادارے نے کم و بیش 100 سعودی شہریوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقامات پر منتقل کیا ہے، حراست میں لئے زیادہ تر افراد کا تعلق ریاض، مکہ المکرمہ اور جدہ سے ہے، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ریاض میں بڑے پیمانے پر خفیہ نگرانی کا کڑا انتظام کیا ہے اور پوش علاقوں میں محلوں کی سطح پر جاسوسی نیٹ ورک قائم کردیئے گئے ہیں اور نوجوانوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جارہی ہے، سعودی انٹیلی جنس بیرون ملک رقوم کی منتقلی کو مانیٹر کررہی ہے، اس عمل میں امریکی خفیہ ایجنسی سی ائی اے سعودی حکام کی مدد کررہی ہے مقصد یہ ہے کہ ایک سعودی ریال حماس تک نہیں پہنچے جو عالم اسلام کی جنگ لڑرہی ہے، حماس کو ختم کرنےکا منصوبہ اسرائیل اور سعودی حکمرانوں کے درمیان وہ مشترکہ نقطہ ہے جو انہیں باہمی تعاون پر آمادہ کرتا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ جب وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے چند قدم کے فاصلے پر تھے تو حماس نے 7 اکتوبر 2023ء پر اسرائیل پر حملہ کردیا اور ایسی صورتحال پیدا کردی جس نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے اُن کی خواہش کو کوسوں دور کردیا لیکن محمد بن سلمان روایتی سعودی مقتدرہ کے برخلاف جلد مایوس ہونے والے نہیں ہیں، وہ مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ حماس کا مکمل صفایا ہو، حماس مزاحمتی محور کا وہ حصّہ ہے جسے سعودی حکمران فرقہ بازی کی اپنی سو سالہ پالیسی کے ذریعے عرب نوجوانوں کو گمراہ کرکے نقصان نہیں پہنچا سکتے حالانکہ سعودی میڈیا بار بار حماس کے اکتوبر 7 کے اقدام کو ایران سے منسلک کرنے کی کوشش کررہا ہے، سعودی عرب ایک مربوط لیکن مزموم منصوبے پر عمل کررہا ہے جس کے تحت سب سے پہلے حماس کی طاقت کو نیست و نابود کرنا ہے، جس کے بعد غزہ کا کنٹرول اُس پی ایل او کے حوالے کرنا ہے جو پہلے ہی اسرائیل کی تابع مہمل بن کر فلسطینی کاز کو فراموش کرچکی ہے اور ایک ایسی ریاست کی نمائندگی کرنے پر فخر کررہی ہے، جس کے پاس بلدیاتی اداروں کے برابر بھی اختیارات نہیں ہیں اس منصوبے میں امریکہ اور سعودی حکام کی مشترکہ کوششیں جاری ہیں، سعودی حکمران صرف غزہ کا کنٹرول پی ایل او کو نہیں دلانا چاہتے ہیں بلکہ وہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں کو بھی خالی کرانے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں تو امریکہ اور اسرائیل اُن کے ساتھ کھڑے ہونگے مگر آٹھ لاکھ یہودیوں آباد کاروں سے فلسطینی سزمین واہ گزار نہیں کراسکتے، اس کا واحد حل جہاد اور شہادت کا جذبے کی بیداری ہے۔
امریکی مقتدرہ کی منافقت تو سمجھ آتی ہے، واشنگٹن اسرائیل کے ذریعے خطے میں کسی اور طاقت کا عروج دیکھنا نہیں چاہتا مگر سعودی عرب کے حکمرانوں کی منافقت مذموم عزائم کی حامل ہے، سعودی مقتدرہ معمولی فائدے اور تعصب کی بنیاد پر وہ اسرائیل کیساتھ ملکر آئی ٹی سکٹر میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو اسرائیل کی مخالفت سے بچانا چاہتا ہے، یہ سعودی عرب ہی ہے جس نے پاکستانی مقتدرہ کو دو ارب ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بطور امانت رکھنے کا جھانسہ دیکر پاکستانی شہریوں کے اسرائیل مخالف جذبات کے اظہار اور فلسطینیوں کی مدد سے روکا ہوا ہے، پاکستان جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو غاصب ریاست قراد دیا تھا اُسی ملک میں فلسطین کا پرچم لہرانے پر جوانوں کو گرفتار کرکے اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس افسوسناک صورتحال پر ماتم کرنے کا کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن فلسطینیوں کو دیکھیں وہ ایران کے بعد پاکستان سے اُمیدیں باندھے بیٹھیں ہیں۔