تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کے موجود سیاستدانوں میں شاہد خاقان عباسی اور مفتح اسماعیل پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر اور آصف لطیف کھوسہ ایسے نام ہیں جو اپنی سابقہ جماعتوں میں سیاسی مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد کئے جائیں گے، اِن میں ایک نام پیپلزپارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن کا ہے جو طویل عرصے وابستگی کے بعد اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑے کیلئے تیار نہیں ہیں البتہ اُنھوں نے پیپلزپارٹی کی سیاست سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلیا ہے اور وہ بظاہر تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو پاکستان میں جمہوریت کا علمبردار سمجھتے ہیں، سابق وزیراعظم خاقان عباسی کی حیثیت تھوڑی مختلف ہے عباسی سمجھتے ہیں کہ اُن کا سیاسی طور طریقہ تحریک انصاف سے میلان نہیں رکھتا ہے، وہ پرانے وقتوں کی سیاست کرنے والےسینئر سیاستدان ہیں، نوجوان نسل کے دباؤ کے تلے سیاست کرنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان کے کم وبیش 54 فیصد نوجوان ملکی سیاست میں دلچسپی لینے لگے ہیں اور 36 فیصد نوجوان عملی طور پر سیاسی سرگرمیوں کا حصّہ بن رہے ہیں، سیاسی عزائم رکھنے والی نوجوان نسل کی واضح اکثریت پاکستان تحریک انصاف یا یوں کہیں عمران خان کیساتھ کھڑی ہے، یہ نسل مفادات کی سیاست کے بجائے ملک کو بچانے کی سیاست کررہی ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا، مسلم لیگ(ن) کی موروثی سیاست سے دلبرداشتہ شاہد خاقان عباسی نے اپنی نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے کوائف الیکشن کمیشن میں جمع کرادئیے ہیں، خاقان عباسی نے اپنے قریبی ساتھیوں کو بتایا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں نئی سیاسی جماعت کے تحت الیکشن میں بھرپور حصہ لیں گے، دیر سَویر آئندہ الیکشن تو ہونے ہیں، 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کو موجودہ حکومت کے علاوہ کوئی بڑی جماعت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، اگر نتائج کو عدالتی انصاف کے ذریعے درست نہیں کیا گیا تونئے انتخابات نوشتہ دیوار کی طرح افق سیاست پر صاف نظر آرہے ہیں، ملک کی معیشت ایک مضبوط جمہوری حکومت کے بغیر سنبھلنے والی نہیں ہے، جس ملک میں گزشتہ دو سالوں میںمہگائی 55سے 67 فیصد رہی ہو وہ ملک انقلاب کے داہنے پر کھڑا ہوتا ہے، عام لوگوں کی ہمت جواب دے گئی ہے، زندہ رہنے کیلئے نوجوان جرائم کا راستہ اختیار کررہے ہیں جو بغاوت اور خانہ جنگی کا پہلا قدم ہوتا ہے، بغاوت تو خانہ جنگی سے بہتر ہوتی ہے پاکستان کی نوجوان نسل ملک میں رائج سامراجی نظام اور موروثی سیاست سے جان چھڑانا چاہتی ہے کیونکہ اُن کا پاکستان میں مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
پاکستان میں عمومی طور پر سیاسی جماعتیں موروثیت پر قائم ہیں چاہے وہ دائیں بازو کی سیاست کریں یا بائیں بازو کی سیاست سوائے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی موروثیت کے ناسوز سے آزاد نہیں ہیں جس میں خان غفار خان اور ولی خان کی اے این پی ہو یا پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی جو بلوچستان کی پشتون بلیٹ کی نمائندہ جماعت ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی بھی موروثی سیاست کو فروغ دے رہی ہیں، پاکستان میں چار دہائیوں سے تین بڑی سیاسی جماعتیں رہنے کا شرف حاصل کرنے والی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ تینوں سیاسی جماعتوں نے موروثی سیاست کو پروان ہی نہیں چڑھایا بلکہ اسکی پاکستانی سیاست میں جڑیں اتنی گہری کردیں ہیں کہ تحریک انصاف کے ہمدردوں کو عمران خان کے بیٹوں اور اُنکی بہن میں جانشین بننے کی خو نظر آنے لگی ہے جبکہ عمران خان نے سختی سےموروثی سیاست کی مخالفت کی ہے، موروثی سیاست کے نیتجے منفی اور مثبت دونوں طرح کے نکلتے ہیں بے نظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن کو بظور نظیر پیش کیا جاسکتا ہے جبکہ موروثی سیاست کی عصر حاضر میں بدترین شکل پنجاب اور سندھ میں دیکھ سکتے ہیں جو ہرگز اس کے اہل نہیں ہیں کہ وہ ملک کی بڑی پارٹیوں کو سنبھال سکیں۔
سابق وزیراعظم خاقان عباسی کا مسلم لیگ(ن) میں موروثی سیاست سے علیحدگی اختیار کرنا سیاست میں باد نسیم کی حیثیت رکھتا ہے، تحریک انصاف اور حافظ نعیم الرحمٰان کی قیادت میں جماعت اسلامی اور دوسری طرف خاقان عباسی اگرچہ وہ سیاست میں فوجی مداخلت کے نظریئے پر قائم رہتے ہیں موروثی سیاست کو شدید دھچکا لگے گا، افسوس ہوتا ہے جب مریم نواز اور بلاول بھٹو کے پیچھے بزرگ سیاستدان ہاتھ باندھیں کھڑے ہوتے ہیں، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں بہت سے ہیرے موجود ہیں جو کوئلے میں دبے ہوئے ہیں، کاش وقت واپس لوٹ آتا اور بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی نظریں ایک بچے کے بجائے مخدوم امین فہیم پر پڑتی جنھوں نے صدر پرویز مشرف کیساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کا معاہدہ کرایا اور پیپلزپارٹی کے نیم مردہ جسم میں جان ڈالی تھی، مخدوم خاندان کی پیپلزپارٹی کے نظریئے سے اٹوٹ وابستگی رہی تھی مخدوم امین فہیم کی قیادت میں پیپلزپارٹی کم ازکم اپنا نظریہ تو ضرور بچاتی۔