عراق، شام اور بعدازاں امریکہ نے داعش کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں، سیکولر افغانستان کے صدر حامد کرزئی 2017ء کے بعد سے داعش کے افغانستان میں موجودگی اور انہیں امریکی حمایت حاصل ہونے سے متعلق مسلسل تشویش کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں، الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کو 2017ء میں دیئے گئے انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی حکومت پر افغانستان میں داعش کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا اور اس بات پر زور دیا کہ امریکہ نے اس گروپ کو ملک کے اندر پنپنے کی اجازت دی اور محفوظ پناہ گاہیں اور اسلحہ فراہم کیا ہے، دسمبر 2021 میں حامدکرزئی نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان کی جانب سے داعش کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے، کرزئی کے ریمارکس اُس وقت سامنے آئے جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں دعویٰ کیا تھا کہ داعش افغان سرزمین سے پاکستان کے لئے خطرہ ہے، پاکستان اور افغانستان کے داعش خرانسان کی بابت خدشات حقیقی ہیں دونوں ملکوں میں امریکی اثر و رسوخ اس قدر گہرا ہے کہ داعش سے متعلق امریکی پالیسی سازوں کے اذہان پڑھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے، امریکہ اور کسی حد تک اسرائیل کی عراق اور شام میں داعش کو بھرپور مدد حاصل رہی
افغانستان میں دولت اسلامیہ کا الحاق، جسے داعش خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے، 2015 سے سرگرم ہے۔ اس گروہ نے افغانستان کے اندر متعدد حملے کیے ہیں اور پاکستان، ایران، تاجکستان اور ازبکستان سمیت ہمسایہ ممالک تک اپنی کارروائیوں کو بڑھایا ہے، 2021ء میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد داعش خراسان نے طالبان حکومت کے خلاف اپنی شورش تیز کر دی ہے۔ اس گروپ نے جون 2023 میں صوبہ بدخشاں کے نائب گورنر سمیت طالبان عہدیداروں کا قتل جیسے ہائی پروفائل حملے کیے ہیں، مزید برآں، دسمبر 2024 میں، کابل میں ایک خودکش بم دھماکے میں خلیل حقانی، طالبان کے وزیر برائے مہاجرین اور وطن واپسی کی جان لے لی گئی، داعش خراسان کا مقابلہ کرنے کے لیے طالبان کی کوششوں کے باوجود، یہ گروپ افغانستان اور وسیع تر خطے میں سکیورٹی کے لیے ایک اہم خطرہ بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ نے رپورٹ کیا ہے کہ القاعدہ اور داعش خراسان دونوں افغانستان میں دوبارہ طاقت حاصل کر رہے ہیں، داعش-کے اس ملک کو عالمی سطح پر حملوں کی منصوبہ بندی اور مربوط کرنے کے لیے ایک اڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
افغانستان میں حملے کے نتیجے میں ایک چینی شہری ہلاک ہوگیا، جہاں طالبان حکومت بیجنگ سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے سیکیورٹی کی بہتر تصویر پیش کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق صوبائی پولیس ترجمان محمد اکبر حقانی نے بتایا کہ تاجکستان کی سرحد سے متصل شمالی صوبہ تخار میں سفر کے دوران چینی شہری کو نامعلوم مسلح افراد حملہ کر کے قتل کر دیا۔
اکبر حقانی کا کہنا تھا کہ مقتول چینی کے ساتھ سفر کرنے والے مترجم نے بتایا کہ وہ ’نامعلوم وجوہات‘ اور سیکیورٹی حکام کو بتائے بغیر سفر کررہے تھے، جن کے ساتھ افغانستان میں سفر کے دوران عام طور پر متعدد دیگر چینی شہری بھی ہوتے ہیں۔
ترجمان وزارت داخلہ عبدالمتین قانی نے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چینی شہری کاروباری شخصیت تھے اور ان کا افغانستان میں مائننگ کا معاہدہ تھا۔