سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے مخلتف علاقوں سے لاپتا ہوئے 13 افراد کی بازیابی کیلئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تصاویر شائع کرنے کا حکم دے دیا، جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتا 13 سے زائد افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں ہر سماعت ہوئی، بغدادی کے علاقے سے 9 سال سے لاپتا کامران کے والدین سے عدالت کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے بیٹے سمیت تین افراد کو اٹھایا گیا، والدین نے فریاد کرتے ہوئے کہا کہ 2 افراد واپس آچکے ہیں مگر ہم 9 سال سے دھکے کھا رہے ہیں، لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پیش رفت نہ ہونے پر عدالت نے پولیس پر اظہار برہمی کیا، جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ 2018ء سے حراستی مراکز سے رپورٹس حاصل نہیں کرسکے، عدالت نے اس معاملے پر سیکریٹری دفاع کو طلب کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سیکریٹری دفاع شہری کامران سمیت دیگر بازیابی کے لئے کیے گئے اقدامات سے متعلق عدالت کو آگاہ کریں، عدالت نے 10 سال سے لاپتا ایم کیو ایم کارکن جاوید اور یاسین کی عدم بازیابی سے پر اظہار تشویش کیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی جانب سے روایتی رپورٹس پیش کی جارہی ہیں، 10 سال میں یہ بھی تعین نہیں ہوسکا، خود گئے ہیں یا جبری طور پر لاپتا کئے گئے ہیں، عدالت نے ایف آئی اے سے تازہ ٹریول ہسٹری طلب کرلی۔ عدالت نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں لاپتا شہریوں کی تصاویر شائع کرنے کا حکم دے دیا، بزرگ خواتین نے عدالت میں دہائیاں دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس بچے واپس کردیئے جائیں، ایس ایس پی عبد الرحیم شیرازی نے کہا کہ یاسین سے متعلق متعلقہ وزارتوں کو خطوط لکھے مگر جواب نہیں آیا، عدالت نے اگست کے دوسرے ہفتے میں پیش رفت رپورٹس طلب کرلیں۔ عدالت نے پولیس، رینجرز اور دیگر کو لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے موثر اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔