تحریر: محمد رضا سید
اسرائیل کو اُسکے زیر قبضہ شمالی علاقوں کی فوجی تنصیبات پر حزب اللہ کے حملوں سے نمٹنا مشکل ہوتا جارہا ہے جبکہ عرب سرزمیں پر قابض اسرائیل کی تعمیر کردہ یہودی بستوں کے آباد کاروں کی نقل مکانی سے پیدا ہونے والا مالی اور سماجی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، حزب اللہ جوکہ اسلامی مزاحمتی محور کا کلیدی کردار ہے نے 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور جارحیت کے خلاف حماس پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کیلئے مقبوضہ علاقوں میں شمالی محاذ کھول دیا، وقت گزرنے کیساتھ اب اسرائیل پر حملے تیز کر دیئے گئے ہیں اور حالیہ چند ماہ میں اسرائیلی فوج کو ناک چنے چبوائے ہیں، اس دوران ایک تحقیق کے مطابق اسرائیل کو ایک ارب 73 کروڑ امریکی ڈالر کا صرف شمالی محاذ پر فوجی نقصان اُٹھانا پڑا ہے جبکہ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتیں اور زخمی فوجیوں کی وجہ سے تل ابیب کو جو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے وہ علیحدہ ہے، اسرائیلی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ شمالی محاذ پر اس نے 44 فوجیوں کو گنوایا ہے جبکہ کم و بیش ایک ہزار سے زائد اسرائیلی فوجی اور اِن کے مددگار زخمی ہیں، جن میں سے 432 افراد افراد اور اِن کے اہل خانہ کا کئی سالوں تک سارا بوجھ اسرائیلی سماج کو اُٹھانا پڑے گا، اس کے ساتھ اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی نقل مکانی کا دوبارہ آباد کاری تک تمام بوجھ اسرائیل کی غاصب حکومت کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے ،ڈیڑھ لاکھ افراد کی نقل مکانی سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اور ذہنی کارکردگی کے متاثر ہونے کے مسائل کا سامنا آئندہ چند سالوں تک اسرائیل معاشرے کو جھیلنا پڑے گا، مقبوضہ شمالی محاذ پر نظر رکھنے والے اعتدال پسند اسرائیلی دفاعی مبصرین حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کو خسارہ زدہ فریق سمجھتے ہیں، جو حزب اللہ کے مقابلے میں اسرائیل اپنا آٹھ سو فیصد زیادہ دفاعی اور سماجی نقصان کرچکا ہے۔
مغربی انٹیلی جنس کی جاری کردہ اطلاعات جو عموماً پروپیگنڈا مقاصد کیلئے عام کی جاتی ہیں کے مطابق حزب اللہ کے پاس کم وبیش دو لاکھ تین درجوں تک ہدف کو نشانہ بنانے والے گائیڈڈ میزائل موجود ہیں لیکن یہ درست اطلاعات نہیں ہیں حزب اللہ کی دفاعی استعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد حزب اللہ کی دفاعی استعداد سے اچھی طرح واقف ہے، جس کا اظہار خود حزب اللہ مختلف مواقعوں پر کرتی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ابھی تک لبنان میں حزب اللہ کے خلاف مکمل جنگ چھیڑنے سے کترا رہا ہے اور مغربی ملکوں کی سفارتکاری کی حمایت کررہا ہے تاکہ اُسے حزب اللہ سے لڑنا نہ پڑے، حزب اللہ نے بھی سفارتکاری کی حمایت کی ہے مگر اپنے اُصولی موقف کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، حزب اللہ کا اوّل روز سے موقف ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی بند کی جائے اور مستقل جنگ بندی کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج غزپ سے نکال لی جائے، اسرائیل فوج کی لبنان پر جارحیت کی دھمکیوں پر حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے کہنا ہے اسرائیل نے لبنان کے خلاف مکمل جنگ چھیڑی تو لبنان کی مزاحمتی قوتیں کسی رکاوٹ اور دباؤ کے بغیر جنگی اُصولوں کے مطابق اسرائیل کے دارالحکومت سمیت تمام شہروں کو نشانہ بنائے گی اور اسرائیل کو جنگ شروع کرنے کیساتھ احساس ہوجائیگا کہ اُس نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کی ہے، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تقریباً دو دہائیوں سے کم درجے کی لڑائی جاری رہی ہے اور حزب اللہ نے اسرائیل کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے مگر غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد مسلح تصادم میں کئی گنا زیادہ شدت آئی ہے، بلیو لائن جو اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں اور جنوبی لبنان کو جدا کرتی ہے اور گولان کی پہاڑیوں کے ارد گرد علاقے میں جن پر تل ابیب نے دوسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کرلیا تھا امریکی تھنک ٹینک سی ایس ایس نے حزب اللہ کے 4,400 سے زیادہ حملوں کو ریکارڈ کیا ہے، حزب اللہ کے ٹینک شکن گائیڈڈ میزائلوں نے 7 اکتوبر 2023ء کے بعد اپنی لانچنگ سائٹس سے کم از کم 17 مواقع پر اسرائیلی فورسز کو نشانہ بنایا ہے اور اسرائیلی تنصبات کو نقصان پہنچایا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کو مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کے پاس تقریباً 30,000 فعال فوجی قوت اور 20,000 ریزرو تربیت یافتہ نفری موجود ہے جبکہ آزاد ذرائع حزب اللہ کی حقیقی عسکری قوت اس سے کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں، حزب اللہ کی فورس ڈیزائن اسطرح کی گئی ہے کہ وہ اسرائیل کی زبردست طاقت کے باوجود مؤثر طریقے سے اسکا مقابلہ کرسکتی ہے، حزب اللہ کے ارکان شام میں دہشت گردوں سے مقابلے کے دوران ٹی 72 اور ٹی 54 اور 55 ٹینکوں کو چلانے کی تربیت حاصل کرچکے ہیں، جنھیں شمالی محاذ پر اسرائیلی فوج کے خلاف پہلی مرتبہ استعمال کرکے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں اسکی فوج اور معاشی مراکز کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل پہلی مرتبہ جنگ کے بچنے کے آپشن کو ترجیح دے رہا ہے، تاہم اسرائیل اور اُس کے اتحادی حزب اللہ کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑ رہے ہیں، مسلسل پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی طرح لبنان کو پتھروں کے دور میں لے جائے گا اور دوسری طرف مغرب کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملک میں فرقہ وارانہ ہم آھنگی ختم کرنے کیلئے سرگرم ہوچکی ہیں اور مقصد یہ ہے کہ مذہبی اکائیاں اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں وطن کا دفاع حزب اللہ سے ہم آھنگ ہوکر نہ کریں، لبنان کی دوسری مارونی عیسائی تنظیم کو مغربی انٹیلی جنس نے اپنا آلہ کار بنایا جو نہ صرف اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی مخالفت کررہا ہے بلکہ خانہ جنگی کے بعد کے فرقہ وارانہ سماجی معاہدے کو مردہ قرار دے رہا ہے تاکہ لبنان کے سیاسی دھانچے میں حزب اللہ کی اہمیت کو کم کیا جاسکے جو مسلمان اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے، لبنان کے مارونی عیسائیوں کے ایک مخصوص گروہ کی اس کوشش کی حزب اللہ نے شدید مخالفت کرتے ہوئے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا جو لبنان کی جغرافیائی سالمیت کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی جانب گامزن ہے، بیروت میں فرقہ وارانہ سوچ کے حامل مذہبی عناصر کا اجتماع اس وقت منعقد کرانے کا مقصد اسرائیل کو تقویت پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے مارونی عیسائیوں کے اس گروہ کو تمام مارونی عیسائیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، یہ گروہ اسرائیل کی خواہش پر لبنان کو ایک بار پھر سیاسی انتشار کی آمجگاہ بنانے پر بضد ہے اور مغربی انٹیلی جنس ایجنسیاں اسرائیلی خواہش کو پورا کرنے کیلئے اپنا مذموم کردار ادا کررہی ہیں، اسرائیل لبنان کے سیاسی ڈھانچے میں حزب اللہ کے کلیدی کردار کو ختم کرنے کی اپنی خواہش پر عمل پیرا ہے مغربی ملکوں کو سمجھنا چاہیے کہ خطے میں بدامنی میں اضافہ اُن کے کردار کو خطے میں محدود کردے گا کیونکہ اب یہاں روس اور چین موجود ہیں جو طاقت کا توازن قائم کرچکے ہیں۔