تحریر: محمد رضا سید
ایران اور سعودی عرب کے اعلیٰ فوجی حکام نے دفاعی تعلقات بہتر بنانے، اس شعبے میں باہمی تعاون اور مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے ممکنہ طریقوں پر تبادلہ خیال کیا ہے، سعودی عرب کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمید الرویلی ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد کی قیادت کرتے ہوئے اتوار کے روز تہران پہنچے جہاں وہ اعلیٰ ایرانی فوجی حکام سے متذکرہ بالا نکات پر بات چیت کررہے ہیں، سعودی مسلح افواج کے جنرل چیف آف اسٹاف فیاض الرویلی نے ایرانی ہم منصب جنرل محمد باقری سے ایرانی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف ہیڈ کوارٹرز میں ملاقات کی، سعودی فوج کے سربراہ کا دورہ تہران اس حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب ڈونلڈ ٹرمپ جیت چکے ہیں اور غاصب اسرائیلی حکومت خطے میں کشیدگی کو نمایاں طور پر بڑھا رہی ہے اور نتین یاہو کی سربراہی میں غاصب اسرائیلی حکومت جنگ بندی کے تمام راستوں کو مسدود کرکے خطے میں جارحیت کو بڑھانا چاہتی ہے، ایران اور سعودی عرب کے مسلح افواج کے سربراہان کے درمیان ملاقات کو ایران سعودی تعلقات میں ایک پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے، نومبر 2023 میں سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران ایران کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر نے کہا کہ ایران کی مسلح افواج سعودی عرب کے ساتھ فوجی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے پوری طرح تیار ہیں، جنرل محمد باقری اور خالد بن سلمان نے مسلم دنیا کے اہم مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا اور ایک دوسرے کو اپنے اپنے ممالک کے دورے کی دعوت دی، واضح رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سکیورٹی معاہدے کرنے کی باتیں چل رہی ہیں، جس میں سرحدی علاقوں کی سکیورٹی کو مضبوط بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے باہمی تعاون بڑھانے کیلئے فریم روک تیاری آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، علاقئی سیاست اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی شعبوں میں باہمی تعاون سے خطے میں استحکام پیدا کرنے میں مدد ملے گی جوکہ مسلمان ملکوں کیلئے بڑی پیشرفت تصور کی جارہی ہے، ایران میں شہشاہیت کے خاتمے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعصبات کو اغیار نے ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد، امریکی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو اور ایم آئی 6 نے ایک سے زائد مشترکہ آپریشنز کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے دو برادر ملکوں کو قریب آنے سے روکا، 2023 میں چین کی معاونت سے دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات بحال کیے، اس کے نتیجے میں مختلف سطحوں پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت جاری ہے جس میں دفاعی تعاون کے شعبے کو بھی شامل ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان مکالمے کا سلسلہ علاقے میں فوجی تصادم کے امکانات کو کم کرنے اور مشترکہ دفاعی چیلنجز کا سامنا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
سعودی وزارت دفاع کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ترکی المالکی نے بدھ 24 اکتوبر کو بتایا کہ رائل سعودی نیول فورسز نے میں بحیرہ عمان میں ایران سمیت کثیر الملکی مشترکہ بحری مشق میں حصّہ لیا ہے جبکہ دونوں ممالک بحیرہ احمر میں مشترکہ فوجی مشقوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں، میجر جنرل باقری نے اپنے سعودی ہم منصب سے ملاقات کے دوران کہا کہ سعودی بحریہ کو اگلے سال ایرانی بحری مشقوں میں شریک ہونے کی رسمی دعوت دی ہے، ایران اور سعودی عرب کے اعلیٰ سیاسی اور فوجی حکام جامع دفاعی معاہدہ کو عملی شکل دینے میں مصروف ہیں، ایران اس سے قبل سعودی عرب کو ایٹمی توانائی کے شعبے میں تعاون کی پیشکش کرچکا ہے، اس پیشکش کے بعد ریاض حکومت کو تہران کے اخلاص کو سمجھنے میں مدد ملی اور دفاعی تعاون کے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے آغاز کا سفر شروع کیا گیا، ایران اور سعودی عرب کے درمیان سائبر سکیورٹی وہ پہلا شعبہ ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی سطح سب سے زیادہ بلند ہے، اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک نے سائبر سکیورٹی میں تعاون میں امکانات کا جائزہ مکمل کرلیا ہے اور جلد اس شعبے میں باہمی تعاون کیلئے جلد ہمہ گیر معاہدے کا امکان ہے، سائبر سکیورٹی میں ایران سعودی تعاون سے دونوں ممالک کو معلومات اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کا موقع مل سکتا ہے، اس شعبے میں ایران کی پیشرفت سے ریاض خوب فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کا فی الوقت انحصار مغربی ملکوں پر ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک خطے میں ایک دوسرے کے خلاف پوزیشن لینے کی وجہ سے دونوں کے درمیان فوجی تعاون یا مشترکہ مشقیں نہیں ہو سکیں تاہم دفاعی تعاون کی بحالی کے اقدامات اور خطے میں استحکام کے لئے دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی مشقوں کی منصوبہ بندی یا دیگر تعاون کے امکانات روشن ہوچکے ہیں، ایران اور سعودی عربیہ کے درمیان سکیورٹی تعاون کو فروغ دیا جاتا ہے تو انسداد دہشت گردی، سمندری تحفظ اور سرحدی سکیورٹی جیسے شعبوں میں مستقبل قریب میں مشترکہ دفاعی مشقیں شروع ہوسکتی ہیں، جس کیلئے دونوں ملکوں کے اعلیٰ دفاعی حکام کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، اس اقدام سے مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثبت پیغام جائے گا، یہ مشقیں خطے میں استحکام اور امن کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، ایران اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کی نوعیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کا زیادہ تر مقصد تعلقات کو معمول پر لانا اور مشترکہ خطرات سے نمٹنا ہے، اگر یہ تعاون مزید فروغ پاتا ہے تو یہ نہ صرف ان دونوں ممالک بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لئے استحکام کا باعث بن سکتا ہے بلکہ مشترکہ دشمن کے جارحانہ اقدام کی روک تھام میں مدد ملے گی۔