تحریر : محمد رضا سید
امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والی آزادی فلسطین کی طلباء تحریک نے ملک گیر سطح پر مقبولیت حاصل کرلی ہے، جس نے واشنگٹن کے مقتدر قوتوں پر اثرانداز ہونے والی صیہونی لابی کی اسرائیل نوازی پر مبنی کردار کو محدود کرنے کا عمل شروع کردیا ہے، نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کی وہ پہلی درس گاہ ہے جہاں فلسطینیوں کے حق میں طالب علموں کے مظاہرے شروع ہوئے تھے اور اب یہ سلسلہ ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں تک پھیل چکا ہے۔ کہیں ان مظاہروں کو روکنے کے لیے یونیورسٹیوں کی انتظامیہ مذاکرات سے کام لے رہی ہے تو کہیں انہوں نے مظاہرین کو کیمپس سے باہر نکالنے کے لیے پولیس کو بلا لیا ہے، امریکہ میں انسانی حقوق کی تحریکوں نے پہلے ہی وائٹ ہاؤس کو اسرائیل کیلئے 26 ارب ڈالر کی فوجی امداد کے بل کو یوکرین اور تائیوان کی فوجی امداد سے نتھی کرکے منظور کرانے پر مجبور کردیا تھا، جس کیلئے امریکہ میں تل ابیب کی لابی نے درپردہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ارکان کو متعدد یقین دہانیاں کرائی ہیں، جس میں غزہ میں جنگ بندی کیلئے سنیجدہ کوشش کرنا اور رفح پر عمومی بمباری گریز کرنے کی یقین دہانیاں بھی شامل ہے، اسرائیل ابھی بھی وائٹ ہاؤس اور امریکی مقتدرہ کا لاڈلہ ہے مگر امریکی عوام نے غزہ میں اسرائیلی بربریت بچوں اور عام شہریوں کے قتل عام اور فلسطینیوں کیلئے ریاست کے قیام کی تحریک نے امریکی مقتدرہ کو اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرنے کی روایتی پالیسی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے، امریکی رائے عامہ کے تمام سرویز میں اسرائیل کو قصوروار ٹہرایا گیا ہے جبکہ فلسطینیوں کو اُن کے وطن کی واپسی کی حمایے کی گئی ہے۔
نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے اُٹھنے والی کوئی بھی تحریک امریکی معاشرے میں تبدیلی کا ایک استعارہ سمجھی جاتی ہے، ویت نام کی جنگ میں امریکی فوج کی بربریت کے خلاف اسی یونیورسٹی نےپہلا قدم اُٹھایا تھا، غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی شہادتوں اور سنگین ہوتا ہوا انسانی بحران، طلبہ کو مزید برہم کر رہا ہے اور وہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ سے یہ مطالبے کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل نواز گوگل جیسی کمپنیوں سے اپنے مالی منفعت پر مبنی تعلقات منقطع کرلیں اور ان کمپینوں سے الگ ہو جائیں جو غزہ تنازع کو تقویت دے رہی ہیں، دوسری طرف اسرائیلی لابی طلبہ تحریک کو یہودیوں کیلئے نفرت پیدا کرنے کا سبب قرار دینے کیلئے سرگرم ہوچکی ہے، اسی لابی کے چند شرپسند عناصر نے لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں طلبا پر حملہ کیا اور احتجاج ختم کرانے کی ناکام کوشش کی ہے، اس دوران وہاں موجود امریکی پولیس نے صیہونی تحریک سے وابستہ افراد کے حملے کو روکنے کی کسی طرح کی کوشش نہیں کی، امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں احتجاج کرنے والے 900 طلباء کو پولیس نے حراست میں لیا ہے، پولیس تشدد کی وجہ سے عام امریکی بھی اس احتجاج کی حمایت کرنے لگے ہیں، لاس اینجلس یونیورسٹی میں اسرائیلی بربریت ختم کرانے کیلئے لگائے گئے احتجاجی کیمپس مسلسل پھیل رہے ہیں تو وہیں اسرائیل سفارتخانے کی اپیل پر صیہونی تحریک سے وابستہ طلبہ نے بھی کیمپس میں احتجاج کیا جس میں چند یہودی طلبہ کیساتھ صرف چند درجن افراد شریک ہوئے، امریکن اسرائیل کونسل یہودیوں کے خلاف امریکن طلبہ کی جانب سے نام نہاد نفرت پھیلانے کے نام پر سرگرم ہوگئی ہے اور بڑی تعداد میں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں، کونسل امریکی عوام کو باور کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ طلباء تحریک سے امریکی معاشرے میں یہودیوں کے خلاف نفرت بڑھ سکتی ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران غزہ میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والی امریکی طلبا کی تحریک نے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبا اس تحریک کا حصّہ بن چکے ہیں ان مظاہروں میں شدت چند روز قبل کولمبیا یونیورسٹی سے 100 طلبہ کی گرفتاری کے بعد آئی تھی، اس کے بعد کیلی فورنیا، ٹیکساس، اٹلانٹا اور بوسٹن کے تعلیمی اداروں سے درجنوں طلبہ کو گرفتار کیا جا چکا ہے، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن طلباء تحریک سے آگاہ ہیں، جان کربی نے اسرائیل کی مذموم حرکیات کا ذکر کئے بغیر کہا صدر کو ادراک ہے کہ بہت سے امریکی غزہ جنگ کے حوالے سے اپنے جذبات رکھتے ہیں، جان کربی کا کہنا تھا کہ صدر ان جذبات کا احترام کرتے ہیں اور ہم بھی پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرتے ہیں لوگوں کو اپنا نقطۂ نظر دوسروں تک پہنچانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن یہ پرامن ہونا چاہیئے، جان کربی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر یہود مخالف جذبات اور نفرت انگیزی کی بھی مذمت کرتے ہیں یہ واضح رہے کہ امریکی طلبا کی تحریک نے یہودی شہریوں کیلئے کوئی ایسی بات ہی نہیں کی ہے جس سے نفرت کا شبہ پیدا ہو البتہ امریکی مقتدرہ کی خواہش لگتی ہے کہ اس تحریک کو یہودیوں سے نفرت میں تبدیل کردیں۔
اس دوران امریکی معاشرے میں ایک اہم تبدیلی آئی ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کو عالمی امن کیلئے انتہائی غیر ذمہ دار سمجھنے لگے ہیں، یہ سروے پیو ریسرچ سینٹر نے یکم اپریل سے 7 اپریل، 2024 کے درمیان کرایا جس میں 3 ہزار 600 بالغ امریکیوں سے اسرائیلی وزیراعظم کے متعلق رائے لی گئی تو امریکی شہریوں کی اکثریت نے اسرائیلی وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، امریکی یونیورسٹی میں پولیس نے جس بربریت سے غرہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہرے کرنے والے طلبہ کو گرفتار کیا، وہ مناظر دنیا نے دیکھے ہیں، جس نے امریکی معاشرے میں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے کو اظہار رائے کی آزادی سے استشنا سمجھا جارہا ہے اور اس کی بھرپور مخالف نے امریکی مقتدرہ کو کیلئے سوال پیدا کردیا ہے، امریکی جامعات میں مہینوں سے جاری کریک ڈاؤن کے بعد سخت نگرانی اور سینسر شپ میں اضافہ اور طلبہ سرگرمیوں پر پابندیاں، طلبہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم جوئی، یونیورسٹی صدور کی برطرفی اور فلسطین کی حمایت کرنے والے طلبہ گروہوں کی معطلی شامل ہے، اِن سختیوں کے باوجود امریکی طلبہ کی آزاد فلسطینی ریاست کیلئے تحریک امریکی معاشرے کی توانا آواز بن چکی ہے۔