تحریر : محمد رضا سید
ایران کے مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کی ناگہانی موت کے باعث ایرانی آئین کے مطابق 50 روز کے اندر نئے صدر کا انتخاب منعقد کراکے ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کیساتھ اپنی وفاداری کو ثابت کیا ہے، صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں کوئی بھی اُمیدوار رائے داہندگان سے 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا لہذا آئینی تقاضہ پورا کرنے کیلئے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جمعہ 5 جولائی کو پہلے مرحلہ میں دو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا، جس میں سابق وزیر صحت معسود پیزشکیان ایک کروڑ 63 لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ایران کے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کم و بیش 50 فیصدرائے دہندگان نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا جبکہ پہلے مرحلہ میں ووٹنگ کی شرح کم ہونے پر مغربی میڈیا اور اس کے تابع مہمل میڈیا نے شور مچانا شروع کردیا کہ ایرانی عوام اسلامی اسٹیبلشمنٹ سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں لیکن دوسرے مرحلہ کے انتخابات نے ثابت کردیا کہ ملک کی اکثریت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کھڑی ہے، موسمی شدت کے باوجود 50 فیصد ٹرن آؤٹ عوام کی موجودہ نظام کیساتھ وابستگی کا واضح ثبوت ہے، صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں سابق ایٹمی مذاکرات کار سعید جلیلی ایک کروڑ 35 لاکھ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں، سعید جلیلی اگر صدر منتخب ہوتے تو وہ صدر ابراہیم رئیسی کے طریق کو آگے بڑھاتے لیکن تندرو مسعود پیرشکیان ایران کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں بعض بنیادی اور اہم تبدیلیوں کے خواہشمند ہیں، اُنھوں نے صدارتی مباحثوں کے دوران کہا ہے کہ ایران دینا کے 200 ملکوں سے تعلقات آگے بڑھا کر سیاسی اور معاشی میدانوں میں بڑی پیشرفت کرسکتا ہے جسکا براہ راست فائدہ ایرانی عوام کوپہنچے گا اور ایرانیوں کیلئے مشکل اقتصادی حالات کسی حد تک بہتر ہوسکتے ہیں جس کے بعد ایرانی حکومت پر سبسڈی کا بوجھ بھی کم ہو سکے گا، نو منتخب صدر مسعود پیزشکیان ایشیاء کے مشرقی بعید کے ملکوں کے علاوہ افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرقی یورپ کے ملکوں سے تعلقات کو فروغ دینے کی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کو آگے بڑھائیں گے۔
صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹرز کی شرح 40 فیصد رہی تھی جوکہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد صدارتی انتخاب کی تاریخ کے تمام ادوار میں سب سے کم شرح تھی، یہ صورتحال واقعی تشویشناک تھی لیکن اغیار نے بڑی شد ومد سے پروپیگنڈا شروع کردیا کہ ایرانی عوام کا اسلامی انقلابی اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے، پروپیگنڈے کے اس طوفان میں ایرانی عوام بڑی تعداد میں ووٹنگ کیلئے باہر نکلیں اور ایک بار پھر صیہونی کنٹرول میں موجود میڈیا کے کم فہم وفراست رکھنے والے تجزیہ نگاروں کو مایوس کردیا جو مارچ 1979ء سے لگاتار ایرانی عوام کا اسلامی انقلاب سے رشتہ توڑنے کی نوید سناتے رہے ہیں، ایران کے عوام جب اپنے نئے صدر کے انتخاب کیلئے پولینگ اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں لگائے ہوئے تھے، برطانیہ میں بھی انتخابات کیلئے ووٹنگ ہورہی تھی، وقت کے فرق کی وجہ سے برطانوی انتخابات کے نتائج پہلے سامنے آئے، 14 سال بعد برسراقتدار آنے والی لیبر پارٹی کو ملک کے بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے، برطانیہ کے45 فیصد عوام جس کرب زدہ زندگی کا سامنا کررہے ہیں اُسکی مثال جدید برطانوی تاریخ میں نہیں ملتی، برطانوی عوام کی معیار زندگی شہری علاقوں میں 30 فیصد اور دیہی علاقوں میں 20 فیصد نیچے آچکا ہے، 2024 میں برطانوی عام انتخابات سے قبل ہی ووٹر ٹرن آؤٹ کافی کم رہنے کی پیش گوئی کردی گئی تھی، جو ممکنہ طور پر جدید برطانوی تاریخ میں سب سے کم ہے، اس متوقع کم ٹرن آؤٹ کے عوامل میں سیاسی بے حسی، بڑی جماعتوں سے عدم اطمینان اور یہ تاثر کہ انتخابات کا نتیجہ پہلے سے واضح ہونا شامل ہیں لیکن یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ عوام کا رشتہ برمنگھم پیلس کے بادشاہ سے ختم ہوگیا ہے، اسی طرح صدر جو بائیڈن کے انتخاب کے بعد ریاستی عمارتوں پر امریکی عوام کے شدید حملوں کے بعد بھی یہ نہیں کہا گیا کہ اب امریکہ کا صدارتی نظام ریاستوں کے اتحاد کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
ایران کا سیاسی معاشرہ بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاسی معاشروں سے مماثلت رکھتا ہے، ایران میں اشوز کی بنیاد پر عوام کی سیاسی توجہ مبذول ہوتی ہے، ایرانی عوام کے سیاسی شعور کی سطح خطے کے کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ ہے، ایرانیوں کا سب سے اہم مسئلہ روزگار، کرپشن، معاشی مواقع کا محدود ہونا اور مہنگائی ہے، حالیہ صدارتی الیکشن میں تمام اُمیدواروں نے اس اشو کو ایڈرس کیا ہے مگر ایسی کوئی منصوبہ بندی پیش نہیں کرسکے جو ایرانیوں کو مشکل معاشی صورتحال سے نکالنے کا راستہ دکھا سکے، یہی وجہ ہے کہ ایرانی رائے داہندگان نے پہلے مرحلے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا لیکن دوسرے مرحلے میں معاشی مشکلات سے نکلنے کا راستہ کسی حد تک واضح ہوا تو لوگ اپنے گھروں سے نکلے اور لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنے من پسند اُمیدوار کو ووٹ دیا، یوں تو کورونا کے بعد دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ایران کو بھی معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن معاشی چیلنج کی اصل وجہ ایران پر امریکہ اور یورپی ملکوں کی تین ہزار سے زائد پابندیاں ہیں، ایران اپنی آزادی، وقار اور خودمختاری کے تحفظ کیلئے مستکبر ملکوں کی جانب سے لگائے اقتصادی زخم کو برداشت کررہا ہے، اس صورتحال نے ایرانیوں کی نفسیات پر بھی اثرات مرتب کئے ہیں، جسکا عکس العمل ہم انتخابات میں کم ہوتی ہوئی ووٹنگ کی شرح میں دیکھتے ہیں لیکن یہ دائمی مسئلہ نہیں ہے ایران نے دور رس ترقی کیلئے گراؤنڈ ورک کم وبیش مکمل کرلیا ہے، اسی طرح امریکی اور یورپی پابندیوں کا توڑ نکالتے ہوئے اپنی ایکسپورٹ کو تیزی کیساتھ بڑھا رہا ہے، خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث ایشیائی اقوام کی جانب سے ڈالر سے نجات حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں، جسکا فائدہ ایران اور روس کو سب سے زیادہ ہوگا، مسعود پیرشکیان عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پڑوسی ملکوں سے مقامی کرنسی میں تجارت شروع کرنے پر فوری توجہ مرکوز کریں، پاکستان اور ایران کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارت اور کسٹم ڈیوٹیز کے ٹیرف میں کمی لانے سے رسمی تجارت میں دس گنا اضافہ ہوسکتا ہے اور اسمگلنگ کی انسداد کی جا سکے گی، ایران کے نو منتخب صدر مسعود پیزشکیان کو اوّلین فرصت میں اس جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔