تحریر : محمد رضا سید
سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کی سرگرمیوں میں اضافے اور مقامی بااثر افراد کی سرپرستی اور پولیس کی بے بسی کے بعد حکومتِ سندھ نے صوبے میں پولیس کے مختلف ونگز کو مضبوط اور متحرک کرنے کیلئے آپریشنل گاڑیوں کی خریداری کیلئے 177.517 ملین روپے کی منظوری دینے کیساتھ پیپلز بس سروس کا کرایہ جون تک 50 روپے برقرار رکھنے کی منظوری دے دی ہے، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کچے کے ڈاکوؤں کی مذموم سرگرمیوں کو روکنے کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی ہو تاہم پیپلزپارٹی کے گزشتہ 15 سالوں کے دوران اندرون سندھ کچے کے علاقوں کو ڈاکوؤں کی مذموم سرگرمیوں سے پاک نہیں کیا جاسکا، گزشتہ روز وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جہاں صوبائی وزرا، مشیران، چیف سیکریٹری اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پولیس کو دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے کراچی میں اسٹریٹ کرمنلز، کچے کے ڈاکوؤں اور صوبے بھر میں ڈرگ مافیاز کے خلاف کارروائیاں تیز کرنا ہوں گی، انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان آصف زرداری نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں امن و امان سے متعلق اہم اجلاس کے دوران اس مقصد کے لئے واضح ہدایات دی تھیں اور ہر صورت امن و امان بحال کرنے کی ہدایت کی گئی، محکمہ داخلہ نے کابینہ کو بتایا کہ سندھ پولیس، (سی پی او، ایس ایس یو، سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ، ایس پی یو)، سیف سٹیز اتھارٹی اور سندھ فرانزک سائنس لیبارٹری نے آپریشنل مقاصد کی بہتر تکمیل کیلئے گاڑیوں کی خریداری کی درخواست کی ہے۔
سندھ کابینہ کو بتایا گیا کہ سندھ پولیس کی 405 گاڑیاں جو کہ اب مکمل طور پر ناقابل استعمال ہیں، انہیں نئی گاڑیوں سے تبدیل کرنے کیلئے فنڈز فراہم کیے جائیں اور کابینہ نے غور کے بعد محکمہ داخلہ کو آپریشنل مقاصد کیلئے گاڑیوں کی خریداری کیلئے 177.514 ملین روپے کی منظوری دیدی، مراد علی شاہ نے کہا کہ ان کی حکومت نے پولیس فورس کو بہتر اسلحہ اور تنخواہوں کے پیکجز کے ساتھ ساتھ گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں تاکہ فورس کو مزید مستحکم و متحرک کیا جاسکے، انہوں نے شہر اور کچے کے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے حوالے سے پولیس کی کاوشوں کا اعتراف کیا اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ مستقبل میں بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرتے رہیں گے، شہری اور دیہی سندھ اسٹریٹ کرائمز، ڈکیتیوں اور اغواء کی وارداتوں میں پریشان کن اضافہ سکیورٹی اقدامات میں خطرناک سنگینی کی نشاندہی کرتا ہے اور اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ بگڑتا ہوا امن و امان سندھ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، سندھ حکومت شہری سندھ کی طرح دیہی سندھ میں رینجرز کو اختیارات دینے کی مخالف ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی ہے، پیپلزپارٹی کی پندرہ سالوں سے قائم سندھ حکومت دیہی سندھ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاتفریق کارروائیوں کو اپنی سیاسی طاقت کے خلاف سازش سمجھتی ہے جبکہ راولپنڈی کی مقتدرہ اس فکر سے آزاد ہے کہ دیہی سندھ کا امن وامان بحال ہو کیونکہ کراچی تو سونے کی چڑیا ہے اور یہاں باوردی اہلکاروں کی تعیناتی ہرکسی کی خواہش ہوتی ہے یہاں کچھ زیادہ کئے بغیر بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے جبکہ دیہی سندھ میں بہت کچھ کرنے کے بعد کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہاں کے سیاسی اور معاشی حالات شہری سندھ سے بالکل مختلف ہیں، کراچی کے عوام کا مینڈیٹ چوری کرنا اس لئے آسان ہوا کہ یہاں تین دہائیوں سے زائد عرصے سے یہاں رینجرز موجود ہے، سندھ حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں گزشتہ تین ماہ میں اسٹریٹ کرائم کے7822 واقعات کی ایف آئی آر درج ہوئی جبکہ سی پی ایل سی کا کہنا ہے کہ یہ تعداد صرف 20 فیصد واقعات کی ہے جسکی ایف آئی آر درج ہوسکیں ہیں۔
ابھی کچھ عرصے قبل تک ہنی ٹریپس جیسے روایتی طریقوں تک محدود رہنے کے بعد اب ڈاکوؤں کے گروہ قومی شاہراہوں اور سپر ہائی ویز پر ٹرانسپورٹرز اور تاجروں کو نشانہ بناتے ہوئے ڈھٹائی سے اپنی مذموم کارراوئیاں کررہے ہیں اور سندھ کے شہری بے بسی کی تصویر بننے ہوئے ہیں، مارچ 2024ء سے قبل سندھ میں محض دو ماہ کے اندر تاجروں سمیت 200 سے زائد افراد اغوا کا شکار ہوچکے ہیں، جن میں سے 50 کو صرف تاوان کی ادائیگی پر رہا کیا گیا، سینٹرل پولیس آفس کے اعداد و شمار کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ کے علاقوں میں اغوا کے 81 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 59 اغوا کاروں کو تاوان یا دیگر ذرائع سے بازیاب کرایا گیا، جبکہ 28 وارداتوں کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی، جو دیہی سندھ میں ڈاکوؤں کے خطرے سے نمٹنے میں سکیورٹی ناکامی کو نمایاں کرتی ہے، اسی طرح، ضلع گھوٹکی جہاں 26 اغوا کے واقعات ہوئے، صرف 22 متاثرین کو بازیاب کرایا گیا، جس میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ کیسز میں بہت زیادہ فرق ہے، شکارپور اور کشمور میں بالترتیب 18 اور 37 اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ریکارڈ کی گئیں جو کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہت بڑی ناکامی ہے، اس کے باوجود پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت ڈاکوؤں کے خلاف رینجرز یا فوجی آپریشن کو ترجیح دینے کے بجائے پولیس کو اربوں روپے کی گاڑیاں اور اسلحہ دے رہی ہے جو بالآخر ڈاکوؤں کے پاس ہی چلا جائے گا، کشمور کے ڈاکوؤں نے ایک سے زائد مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ انہیں اسلحہ اور پولیس کی گاڑیاں خود قانون نافذ کرنے والے ادارے فراہم کرتے ہیں اور بعض ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اُن کے پاس فوج کے زیر استعمال بھاری اسلحہ بھی موجود ہے ممکن ہے یہ اسلحہ افغانستان سے اسمگل ہوکر یہاں پہنچا ہو، یہ خبر زیادہ پرانی نہیں ہے جب جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کی ایک با اثر شخصیت کو پولیس پروٹوکال کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان سے سندھ میں اسلحہ اسمگل کرنے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا مقدمہ تو درج ہوگیا ہے لیکن اُمید کی جارہی ہے کہ بااثر شخصیت کو اس مقدمے سے خلاصی مل جائے گی ۔
پی پی پی کے پندرہ سالہ دورِ اقتدار میں جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے اور خاص طور پر دیہی سندھ میں کشمور، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر میں اغوا کی وارداتوں کی انسداد کیلئے مربوط حکمت عملی نہیں اپنائی، جوکہ سندھی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں سندھ حکومت کے عزم پر شک کو قوی کرتا ہے البتہ سندھ حکومت کی دلچسپی کو ہم پیپلز بس سروس کیلئے سبسڈی پروگرام جاری کرنے میں جلدبازی میں دیکھ سکتے ہیں، پیپلزپارٹی کی صوبائی کابینہ نے پیپلز بس سروس کا موجودہ کرایہ 50 روپے برقرار رکھنے کیلئے 289.878 ملین روپے کی سبسڈی جاری کرنے کی منظوری دے دی تاکہ رعایتی کرایہ 30 جون 2024 تک جاری رکھا جا سکے، کابینہ نے پیپلز بس سروس میں مزید 90 بسوں کے واجبات کی ادائیگی کے لئے 1.18 ارب روپے جاری کرنے کی بھی منظوری دی، بسیں این آر ٹی سی کے تحت خریدی گئی تھیں، کوئی فاترالعقل شخص ہی اس بات کو تسلیم کرئے گا کہ یہ سبسڈی عوام کی سہولت کو مد نظر رکھ کردی جاتی ہے یہاں بس اتنا کہنا کافی ہے سائیل سواروں کو بی ایم ڈبلیو میں سوار ہونے کے حق کو تسلیم کیا جارہا ہے۔
1 تبصرہ
سندھ حکومت کو کمیشن لینے اور کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں معلوم اندرون ملک لوگ خودکشیاں کررہے ہیں