تحریر: محمد رضا سید
کینیڈا کی پولیس نے کہا ہے کہ اس نے ایک علیحدگی پسند سکھ لیڈر کے قتل کےشبہے میں تین افراد کو گرفتار کیا ہے، اور وہ زیر حراست افراد اور بھارتی حکومت کے درمیان ممکنہ تعلقات کی تحقیقات کر رہی ہے، 45 سالہ سکھ لیڈر ہردیب سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں مسلح افراد نے اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ برٹش کولمبیا کے گردوارہ سے باہر اپنی کار میں تھے۔ کینیڈا نے اس قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے تعلق کا الزام لگایا تھا، پولیس نے حراست میں لئے جانے والے افراد کی شناخت تین بھارتی شہریوں کمل پریت سنگھ، کرن برار اور کرم پریت سنگھ کے طور پر کی ہے، ان تینوں کی عمریں بیس اور تیس سال کے درمیان ہیں، رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ مندیپ موکر نے جمعہ کو ٹورنٹو میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ تینوں مشتبہ افراد کینیڈا میں غیر مستقل رہائشی کے طور پر رہ رہے تھے، اسسٹنٹ کمشنر ڈیوڈ ٹیبول نے کہا کہ کینیڈین حکام بھارت میں اپنے ہم منصبوں سے بات کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اس تعاون کو ایک چیلنج کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ یہ بہت مشکل کام تھا، توقع ہے کہ زیر حراست تینوں افراد کو پیر تک برٹش کولمبیا لے جایا جائے گا جہاں وہ فرسٹ ڈگری قتل اور قتل کی سازش کے الزامات کا سامنا کریں گے، واضح رہے کہ ہردیب سنگھ نجر بھارتی نژاد کینیڈین شہری تھے اور وہ ایک پلمبر کے طور پر کام کرتے تھے مگر وہ ہندوستان میں ایک آزاد سکھ ریاست کیلئے جدو جہد کررہے تھے اور اس مقصد کیلئے وہ کینیڈا میں خالصتان تحریک کے پر زور حامی اور لیڈر تھے، انہوں نے دہشت گردی سے اپنے کسی بھی تعلق کی تردید کی تھی، اس کے باوجود بھارت نے کسی ثبوت کے بغیر سکھ رہنما نجر پر دہشت گردی سے تعلق کا الزام لگا دیا تھا البتہ بھارتی حکومت نے اپنی خفیہ ایجنسی را کے اس قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کینیڈا حکومت سے اپنی برہمی کا اظہار کیا تھا۔
دوسری طرف بھارت نے جمعرات کے روز بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن کی جانب سے اس ہفتے بھارت میں مذہبی آزادی عدم موجودگی سے متعلق رپورٹ کی مذمت کی ہے، کمیشن نے امریکہ کے محکمہ خارجہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بھارت کو واچ لیسٹ میں ڈال دیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ہندو قوم پرستی پر مبنی پالیسیوں کو تقویت دی ہے جبکہ نفرت انگیز بیان بازی کو جاری رکھا ہوا ہے اور فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے میں ناکام رہی ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد مسلمانوں، مسیحوں، یہودیوں، دلتوں اور قدیم قبائلی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو غیر مناسب طور پر متاثر کرتا ہے، رپورٹ میں بھارت کو خاص تشویش کا ملک نامزد کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کے خلاف پابندیاں لگانے کی بھی سفارش کی گئی ہے، کمیشن نے امریکی کانگریس کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کے حالات بہتر ہونے کی شرط پر ہی بھارت کو مالی امداد دے اور ہتھیار فروخت کرے، اس رپورٹ میں پاکستان میں مذہبی آزادی کی ابتر صورت حال کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 2023ء کے مقابلے میں مذہبی آزادی کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے، جہاں اقلیتوں کے خلاف تشدد بڑھنے کے ساتھ ساتھ توہین مذہب کے مقدمات کے اندارج میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
بھارت اس وقت انتخابی ماحول سے گزر رہا ہے ایسے میں کینیڈا میں بھارتی جاسوس ایجنسی سے تعلق رکھنے والے مبینہ ایجنٹوں کی گرفتاری اور امریکی کمیشن کی رپورٹ یقیناً بھارتی جنتا پارٹی کیلئے حوصلہ شکن ہوگی لیکن اسکا منفی کوئی منفی اثر انتخابی ماحول پر نہیں پڑسکتا اور توقعات کے مطابق بی جے پی پوری طرح سے آئندہ حکومت سنبھالنے کیلئے تیار ہے، بھارتی وزیر اعظم مودی نے اپنی کابینہ کے وزراء سے اگلے پانچ برسوں کے لئے نئے سالانہ منصوبوں اور حکومتی اہداف کی تیاری کرنے کی ہدایت کردی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ نریندر مودی کو آئندہ عام الیکشن میں اپنی فتح کا پختہ یقین ہے، بھارت میں اٹھارہویں لوک سبھا کے انتخابات میں 543 امیدواروں کو چُننے کیلئے 19اپریل سے یکم جون 2024ء میں 7 مراحل میں ہوں گے اور ان کے نتائج کا اعلان 4 جون 2024ء کو ہوگا، بھارت کے انتخابی نتائج کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت کیلئے مذہبی عدم رواداری اور بیرون ملک حکومت مخالفین کو نشانہ بنانے کی پالیسی کو آگے چلانا ممکن نہیں ہوگا اور ماضی کی غلطیوں پر سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، بھارت کو بہت زیادہ سفارتی پسپائی کیساتھ ساتھ بھارت کو بیرون ملک جارحانہ اقدامات کو بریک لگانی پڑے گی گا، حالات اور واقعات اس حقیقت کو روشن کررہے ہیں کہ عالمی برادری بھارت کو بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں اور اس پر اصرار کرنے کی وجہ سے سزا دینے کا فیصلہ کرچکی ہے، 17 ستمبر 1950ء کو شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع میں پیدا ہونے والے وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی توقعات کے مطابق نئی دہلی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں آئندہ پانچ سالوں میں بہت زیادہ سنبھل کر چلنا پڑے گا، یقینی طور پر مودی کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا البتہ یہ پاکستان کیلئے بھارت کو اُسکی حیثیت کے مطابق اپنی جگہ پر لانے کا ایک سنہری موقع ہوسکتا ہے لیکن اسلام آباد کے مقتدر افراد بھارت سے تجارت بحال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، پاکستان کی جانب سے عرصے بعد جمعرات 2 مئی 2024ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کلچر آف پیس مباحثے کے دوران ملک کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھارت پر کھل کر تنقید کی ہے۔
پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ کلچر آف پیس اقوام متحدہ کے چارٹر کے مرکزی مقاصد اور اصولوں کی پاسداری سے جڑا ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے امن کے کلچر کو فروغ دینے کی اقوام عالم کی متفقہ خواہش کے باوجود دنیا نفرت، تشدد اور جنگ کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں 300 سے زائد تنازعات چل رہے ہیں، خاص طور پر فلسطین اور جموں و کشمیر میں لوگوں کے حق خود ارادیت کو بے دردی سے کچلا جا رہا ہے جب کہ ہم مستحکم جمہوریتوں میں بھی امتیازی سلوک، تعصب، زینو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو پھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ عالمی برادری انڈیا میں حکومتی سرپرستی میں اسلامو فوبیا کے اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کرنے میں ناکام رہی ہے کیوں کہ 2014ء میں بی جے پی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہندوتوا کے نظریے کے تحت انڈیا کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں، دیگر اقلیتوں، مسیحیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف نفرت، جبر اور تشدد بڑھ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہندوتوا کا نظریہ ایک صدی پرانے یورپی فاشزم سے متاثر ہے اور یہ نظریہ آج نریندر مودی کی زیر قیادت انڈیا میں منظم طریقے سے نافذ کیا جا رہا ہے، پاکستان نے متحدہ عرب امارات اور سعودی دباؤ پر بھارت کیلئے جو چُپ کا روزہ رکھا ہوا تھا اگر مستقل طور پر توڑ دیا ہے تو یہ پاکستانیوں کی عزت نفس کو بحال کرنے کا مستحسن اقدام ہے، عمران خان کی حکومت کے دوران پاکستان نے بھارت کیلئے جو رویہ اور پالیسی اختیار کی تھی وہ قومی اُمنگوں کے مطابق تھی جسے جاری رکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔