اقوام متحدہ کی عالمی اقتصادی صورتحال پر مبنی اپنی رپورٹ میں پاکستان کے لئے 2024 میں 2 فیصد کی معمولی جی ڈی پی اور 2025 میں 2.4 فیصد جی ڈی پی کی پیش گوئی کی ہے، ہندوستان کی 2023-24 میں مجموعی ترقی کی رفتار 7 اشاریہ 3 فیصد ریے گی تاہم ہندوستان میں افراط زر کی شرح بلند ہے، اس سے عوام کی قوت خرید کمزور ہو رہی ہے اور معاشی نمو کی رفتارکو بریک لگنے کا خطرہ موجود ہے، پاکستان کو دہائیوں سے بجٹ خسارے کا سامنا رہا ہے اور ملکی زرمبادلہ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قرضے حاصل کئے جاتے ہیں، کسی بھی ملک کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے کے چار ایم ذرائع ہیں پہلا برآمدت، دوسرا زرترسیلات، تیسرا براہ راست سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) اور چھوٹا ترقیاتی منصوبوں کیلئے غیرملکی قرضہ اور پاکستان جیسے ملکوں کیلئے غیرملکی امداد ہے، پاکستان کی ایکسپورٹ فوجی قیادت کی طرف سے امریکی اشارے پر عمران خان کی حکومت گرائے جانے کے بعد سے مجموعی طور پر زوال پذیر ہے، ترسیلات زر کا یہ حال کہ کہ سال 2023ء کے جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں ترسیلات زر تین سال کی کم ترین سطح پر آچکی ہے، مالی سال 24ء کے پہلے چار مہینوں کے دوران پاکستانی محنت کشوں کی ترسیلات زر کی مد میں 8.8 ارب ڈالر کی رقم آئی رواں مالی سال 2024 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران ترسیلات زر 6.817 فیصد کمی کے بعد 13 ارب 43 کروڑ 47 لاکھ ڈالر رہیں، یہ حجم گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 14 ارب 41 کروڑ 76 لاکھ ڈالر رہا تھا۔
زرترسیلات میں کمی کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ملک کے سیاسی نظام سے ناراضگی اور دوسری وجہ عالمی معیشت کی کمزور حالت ہے اور اسی وجہ سے پاکستانی برآمدت میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کی اکثریت فوج کے سیاسی کردار کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بیرون ملک پاکستانی اپریل 2022ء میں فوج کی مدد سے عمران خان کی حکومت گرانے اور کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے سیاستدانوں کو مسند حکومت پر متمکن کرنے پر مسلسل احتجاج کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی فوجی قیادت کے اس عمل کو پسند نہیں کیا گیا، لوگوں نے جب اپنے غم و ضصّے کا اظہار سڑکوں پر احتجاج کرکے شروع کیا تو خفیہ اداروں، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ذریعے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی خواتین کو بری طرح کچلا گیا اور اب تک مقدمات چلائے بغیر انہیں جیلوں میں رکھا گیا ہے، پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں بڑے عرصے فوجی آمریت قائم رہی ہو اور جمہوری حکومتیں بھی فوجی قیادت کی تابع مہمل ہوں وہاں پہلے ہی سیاست میں خواتین کا کردار محدود رہتا ہے، عمران خان کی کرشماتی شخصیت نے سیاسی میدان میں خواتین کے کردار کو بڑھایا ہے، اس صورتحال کو بدلے بغیر زرترسیلات میں بڑے اضافے کے امکانات نہیں ہیں، اسٹیٹ بینک کے جاری اعداد و شمار کے مطابق زرترسیلات کا بڑا حصّہ مشرق وسطیٰ میں مزدوری کرنےوالے پاکستانیوں پر زیادہ منحصر ہوچکا ہے۔
پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے رواں سال کے چار ماہ کے دوران ایف ڈی آی(براہ راست بیرونی سرمایہ کاری) کا ملکی معیشت میں حصّہ 524 ملین ڈالر تک محدود رہا ہے، جو سری لنکا، افغانستان اور بدحال افریقی ملکوں سے بھی کم ہے، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں زبردست کمی کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے، لاگت میں اضافہ اور دہشت گردی ہے، پاکستان کے موجودہ فوجی سربراہ نے اسپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے قیام کے موقع پر قوم کو سنہرے خواب دکھائے کہ مشرق وسطیٰ سے 70 سے 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آرہی ہےلیکن یہ وہ خواب تھا جسکی بھیانک صورتحال کا پاکستان سامنا کررہا ہے فی الحال سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سرمائے کا بہاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہے اور اِن دونوں ملکوں سے پاکستان کیلئے کوئی اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں، اقوام متحدہ کی عالمی معاشی صورتحال کے حوالے سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں پاکستان سے متعلق تشویشناک اعداد و شمار سامنے لائے گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق افراط زر کی شرح 2023 میں 39.18 فیصد تک پہنچ گئی، پاکستان بھاری قرضوں کے بوجھ کا سامنا کرنے والا ملک بن چکا ہے، 2023 میں ملک کے جی ڈی پی کا 36.5 فیصد بیرونی قرضہ تھا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ بھیانک صورتحال کو جنم دیتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، قومی اور صوبائی حکومتیں قائم ہورہی ہیں مگر دھاندلی زدہ انتخابات کو ملکی اور عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جارہا ہے، پاکستان کے مقبول ترین لیڈر عمران خان جیل میں ہیں اُن کی جماعت کو وفاق میں سب سے زیادہ نشستیں ملیں ہیں، اس کے باوجود فوجی مقتدرہ کے تعاون سے اُسی حکومت کو دوبارہ برسراقتدار لایا گیا ہے جسے عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد مسند اقتدار پر بیٹھایا گیا تھا اور جس کے ارکان کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا کررہے تھے، پاکستان میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی بہتری ممکن نہیں ہے، پاکستان کے دوست ملک اچھے حالات کی خواہش تو کرسکتے ہیں مگر سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔