تحریر : محمد رضا سید
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات دونوں ملکوں کیلئے خطرناک نہیں تباہ کُن ثابت ہوسکتے ہیں،مجموعی طور پر افغانستان کی مقتدرہ کی بعض سیاسی غلطیوں کی وجہ سے قیام پاکستان کے بعدسے ہی پاکستان کے پالیسی ساز افراد اور ادارے افغانستان کو تابع مہمل بنانے کی کوشش کرتے رہے، پاکستان نے اپنے پہلے دس سالوں میں امریکی کیمپ جوائن کرلیا اورپشاور سے امریکی جاسوس طیاروں نے سوویت یونین(موجودہ رشین فیڈریشن) پر جاسوسی کرنے لگے، جس نے سوویت یونین کیلئے افغانستان کی اہمیت کو بڑھا دیا،دوسری طرف افغانستان کی مشرق میں سرحد ایران سے ملتی تھی، 1979ء تک وہاں ایک ایسے شہنشاہ کی حکومت تھی جو دراصل امریکی ایجنٹ تھا،امریکی بلاک میں شامل دونوں ملکوں کے درمیان افغانستان نے پاکستان کو ہی اپنا دشمن سمجھا، پاکستان کی جغرافیائی حد بندی کو تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحدیں مانا جاتا ہے جبکہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت ڈیورننڈ لائن کو بین الاقوامی سرحدیں تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہےجوکہ دونوں ملکوں کے درمیان حقیقی تنازع ہے۔
تاریخی اعتبار سے افغانستان کیلئے پاکستان دینی برادری کی حیثیت سے دوست ملک نہیں رہا، افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے پاکستان کی مخالفت کی ، افغانستان کے سیاسی عدم استحکام نےپاکستان کیلئے ہمیشہ خطرے کا سامان پیدا کیا،جسکی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بنیادیں استوار نہیں نہیں ہوسکیں، جولائی 1973 کو افغان صدر محمد داؤد خان نے منصب صدارت سنبھالتے ہی اپنے پہلے ریڈیو خطاب میں پاکستان کو چوٹ پہنچانے کیلئے پختونستان کی بات چھیڑ دی اُنھوں نے کہا کہ پختونستان ہمارے آباء و اجداد کی کھوئی ہوئی میراث ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ صرف پختونوں کی خواہشات کے مطابق ہی حل ہو سکتا ہے، دنیا جان لے کہ افغانستان کا پاکستان کے علاوہ دنیا کےکسی ملک کے ساتھ کوئی تنازع نہیں اور افغانستان اس تنازعے کے حل کی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا، یاد رہے کہ داؤد خان جب 1961 میں وزیراعظم تھے تو پختونستان کا مسئلہ ہی ان کے زوال کا سبب بنا تھا، پاکستان نے اگست 1961ء میں افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی، اس طویل بندش کے باعث افغانستان تجارت اور ٹرانزٹ سہولیات کے لئے سوویت یونین پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے لگا، اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لئے، داؤد خان نے مارچ 1963 میں استعفیٰ دے دیا اور مئی میں سرحد کو دوبارہ کھول دیا گیاتاہم دونوں ملکوں کے درمیان وجہ تنازع پختونستان کا مسئلہ پھر بھی قائم رہا، 1973ء میں اپنے دوسرے دور حکومت میں داؤد خان کی جس وقت یہ تقریر ریڈیو پر نشر ہوئی، ذو الفقار علی بھٹو لندن میں تھے، انھوں نے فوری طور پر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ افغانستان پاکستان کے اندر مشکلات پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے، ہم اپنے ملک اور مفادات کا دفاع بخوبی کر سکتے ہیں اور ہر قیمت پر کریں گے، بھٹو افغانستان میں داؤد خان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنا دورہ انگلستان مختصر کر کے واپس آگئے اور پاکستان پہنچتے ہی انھوں نے افغان سرحد پر فوجی دستے تعینات کرنے کا حکم دیا، جولائی 1973 میں انھوں نے وزارت خارجہ میں افغان سیل قائم کرایا اور جنرل نصیر اللہ بابر کو افغان امور کا سربراہ مقرر کیا گیا جو اگلے چار برس تک یہ خدمات انجام دیتے رہے، یہ وہی نصیر اللہ بابر ہیں جو خود کہا کرتے تھے کہ وہ طالبان کی ماں ہیں۔
افغانستان میں 1978 میں کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے وہاں سوشلسٹ ریاست قائم ہوئی،پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کی انقلابی حکومت نے سال مکمل نہیں کیا کہ خلق دھڑے تعلق رکھنے والے صدر نور محمد ترہ کئی کو پشتون عصبیت رکھنے والے حفیظ اللہ امین کو پرچم گروپ نے قتل کردیا ، ابھی سال مکمل ہونا باقی تھا کہ 27 دسمبر 1979ء میں حفیظ اللہ امین کو زہر دیکر ہلاک کردیا گیا اور پی ڈی پی کے پرچم گروپ نے اپنا لیڈر ببرک کارمل کو بنالیا، یہ وہ وقت تھا جب یورپ اور امریکہ متحد ہوکر سوویت کمیونزم کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے تھے، سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت نے امریکی اور نیٹو اتحادیوں کو افغانستان میں کمیونزم کا قبرستان بنانے کا موقع مل گیاا ، افغانستان کی زمین اس کام کیلئے پہلے ہی ہموار تھی یہاں روایت پسند مسلمانوں کی اکثریت تھی جن کو کمیونزم کے خلاف بھڑکانہ آسان اور پھر صف آراء کرنا مزید آسان تھا پاکستان میں اُس وقت فوجی آمر کی حکومت تھی، جسے مغرب نے چند موم پھلی دے کر اپنا آلہ کار بنالیا۔
مغرب کی مالی مدد اور چند مذہبی قوتوں کے ذریعے پاکستان نے مجاہدین تیار کئے اور اُن کے ذریعے افغانستان کو خانہ جنگی شروع کرائی گئی ،افغانستان میں اس عسکریت پسندی کی قیادت آئی ایس آئی کے ہاتھ تھی، روس کمیونزم کے بوجھ تلے دب رہا تھالہذا روس نے فروری 1989ء میں افغانستان چھوڑنے میں عافیت سمجھی لیکن پاکستان کی خواہش تھی کہ روس کے نکلنے کے بعد تخت کابل پر پستون کمانڈر گلبدین حکمت یار بیٹھادیا جائےمگر یہ پلان ناکام رہا، افغانستان میں پاکستان کی حقیقی جڑیں موجود نہیں ہیں، افغانستان میں پشتونوں کےایک مخصوص مذہبی طبقے تک محدودیت نےپاکستان کو خارجہ تعلقات کی سطح پر وسیع میدان مہیا نہیں کیااور یوں پاکستان کو افغانستان کی طرف سے ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا، سنہ 1996ء میں پاکستان کی مدد سے کابل پر طالبان کے پہلے قبضے کے دوران پاکستانی حکام نے ڈیورننڈ لائن کو تسلیم بین الاقوامی سرحدیں تسلیم کرانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر پاکستان کے احسانات تلے دبے طالبان نے ڈیورننڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا، پاکستان یہی کوشش حامد کرزئی اور عبد الغنی کی امریکی کٹھ پیلی حکومتوں کے دوران کرتا رہا اور جب ایک بار پھر پاکستان کی حمایت اور تائید سے اگست 2021 میں طالبان نے کابل پردوسری مرتبہ قبضہ کیا اور پورے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا تو انہی طالبان نےپاکستان کی جانب سے ڈیورننڈ لائن پر لگائی ہوئی باڑ کو اُکھاڑ پھنکا اور تحریک طالبان پاکستان اور بعض بلوچ گروپوں کو پاکستان کے خلاف پراکسی بنالیا،پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ 60 سے 70 ہزار باغیوں اور اُن کے خاندانوں کو افغانستان میں بھارت کی مالی مدد سے رکھا گیا ہے جسے افغانستان اور بھارت اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
کابل پر برسراقتدار طالبان پاکستان کیلئے مشکلات ہی پیدا نہیں کررہے ہیں بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کا دروازہ بننے ہوئے ہیں، سرحدوں پر پاکستانی فوجیوں کی شہادتوں سےعوام کا پیمانہ صبرلبریز ہوچکاہے، افغانستان بدلتے ہوئےعالمی رجحان میں سیاسی تعلقات پر ناز نہیں کرئے ، اُسے پاکستان کی ضرورت ہےاور رہے گی، چین اور ایران دو ایسے ملک ہیں جنھیں افغان طالبان کو زمینی حقائق سے آگاہ کرنا چاہیئے، طالبان نادانی میں وہ کام نہ کریں جس سے اغیار کا مفاد جڑا ہو، امریکہ تاک لگائے بیٹھا ہے کہ افغانستان کو سیاسی اور معاشی میدان میں غیر مستحکم کرئےکیونکہ مضبوط پاکستان اور مضبوط افغانستان امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔