تحریر: محمد رضا سید
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کا مسلسل ردعمل پاکستان کیلئے مستقبل قریب میں پابندیوں کا سبب بن کر پہلے سے مالی مشکلات میں جکڑے ہوئے ملک کو نئے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا، گذشتہ دو ہفتوں کے دوران پاکستان کے حوالے دو ایسی ڈویلپمنٹ ہوئی ہیں جس نے ریاست پاکستان کو انسانی حقوق پامال کرنے والے ملکوں کی صفوں میں لا کھڑا کیا ہے، عام انتخابات کے نتائج کی تیاری میں کی گئی ہیرا پھیری کے ذریعے وجود میں لائی گئی اسٹیبلشمنٹ کے تابع مہمل حکومت لاکھ کہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے اخذ کردہ نتائج پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے لیکن واضح حقیقت کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا، امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستانی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے مطالبے نے پاکستان میں سیاسی ہلچل مچا دی ہے، امریکی ایوان نمائندگان کے 368 ارکان کی منظور کردہ قرارداد میں 8 فروری کے عام انتخابات کا جس طرح مذاق اُڑایا گیا ہے وہ ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھکا دینے کیلئے کافی ہے، امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد میں پاکستان کے بنیادی سیاسی مسائل کو اُجاگر کرتے ہوئے اہم نوعیت کے سوالات بھی اُٹھائے گئے ہیں، پاکستان میں شہری آزادیوں پر پابندیوں کو ختم کرانے کیلئے جو بائیڈن کی صدارت میں امریکی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ ملکر سیاسی مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں، امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان نے پاکستان میں رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، ابھی اس قرارداد کی سیاہی نہیں سوکھی تھی کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کا عمران خان اور تحریک انصاف کیساتھ کھلی ناانصافیوں پر رپورٹ شائع کردی، پاکستان کیلئے یہ صورتحال انتہائی غیر معمولی اور سنجیدگی کی متقاضی ہے، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان پر مقدمات سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری اور زیر التوا مقدمات کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ خود مختار ریاست کے طور پر پاکستان میں عدالتوں کے ذریعے آئین اور مروجہ قوانین پر عمل ہوتا ہے، عمومی اور سادہ بیان دینے سے مسئلہ ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیر قانون شاید بھول گئے کہ عدالتوں سے لئے جانے والے فیصلوں کی پول خود پاکستان کے نظام انصاف کے مضبوظ ستونوں نے سپریم کورٹ کو لکھے ہوئے خط کے ذریعے کھول دی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے خفیہ اداروں کے عدلیہ پر دباؤ سے متعلق خط میں سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مسلسل مداخلت روکنے کیلئے اعلیٰ عدلیہ رہنمائی کرئے مزید یہ کہ عدالتی کنونشن بلاکر نظام انصاف سے مربوط افراد سے خفیہ اداروں کی مداخلت کے متعلق مزید معلومات جمع کی جائیں، اس خط میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں رہنمائی نہیں کی گئی کہ ایسی صورتحال میں ججز کیسے رد عمل دیں؟ ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکوائری ہونی چاہیے کہ کیا سیاسی کیسز میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں؟ اور کہیں انٹیلی جنس آپریٹوز کے ذریعے ججز کو دھمکا کر اس پالیسی کا نفاذ تو نہیں کیا جا رہا ہے؟ پاکستان کے نظام انصاف میں ریاستی اداروں کی مداخلت پر لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک حکم میں وزیراعظم آفس کو نوٹس دیا ہے کہ وہ تمام سول اور ملٹری ایجنسیوں بشمول انٹیلی جنس بیورو اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کو ہدایات جاری کرے کہ وہ کسی جج یا ان کے عملے کے کسی رکن سے رابطہ نہ کریں، لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے اپنے تحریری حکم میں کہا کہ مستقبل میں کوئی بھی ایجنسی کسی جج سے رابطہ نہ کرے چاہے وہ اعلیٰ عدلیہ کا ہو یا ذیلی عدلیہ کا یا ان کے عملے کا کوئی رکن ہو۔
پاکستان کی عدلیہ کے جوانمرد سپوتوں نے عدالتی وقار کی بحالی کیلئے جو اقدامات کئے ہیں وہ قابل تحسین ہیں، البتہ سیاسی اور غیرسیاسی ایسے تمام فیصلوں کی جانچ پڑتال ضروری ہے جو ریاستی اداروں کی مداخلتوں کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں اور جن کی نشاندہی عالمی اور طاقتور ملکوں کے جمہوری ادارے کررہے ہیں، ابھی تو پاکستان کی مقتدرہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جارہی ہے لیکن وہ وقت نہ آئے جب پاکستان کو کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے، پاکستان کے ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں اور مذہبی حلقوں کی جانب سے عدلیہ کی بے توقیری کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، پاکستان ترقی نہیں کرسکتا جبتک کہ پاکستان کا نظام انصاف صرف اور صرف قانون کا دباؤ قبول کرئے، امریکی ایوان نمائندگان اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے مشاہدات اور حقائق کی روشنی میں پاکستان کی موجودہ حکومت اور اس کے لانے والوں کو انسانی حقوق اور لوگوں کی سیاسی آزادی سے متعلق ایک ذمہ دار ریاست کے فرائض سے آگاہ کرکے خرابی کی اصلاح کا مطالبہ کیا ہے، ہمارے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ اصلاح کا عمل شروع کیا جائے، پاکستان کا ہر ذی شعور شہری چاہے وہ حکمراں سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہی کیوں نہ ہو جانتا ہے کہ ریاست نے عمران خان کو نام نہاد مقدمات میں ملوث کرکے ناحق قید رکھا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن کے عمل سے جان بوجھ کر باہر رکھا گیا اور ریاستی اداروں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے عدلیہ اور الیکشن کمیشن اور انتخابی عملے کا بے دریغ استعمال کیا، عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے بیرون ملک پاکستانی شرمندہ ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں کیا سے کیا ہوگیا۔
پاکستان کا سیاسی عمل کبھی بھی سیاسی مداخلتوں سے محفوظ نہیں تھا لیکن جنرل ضیاء الحق نے جو ٹیم سیاست میں اُتاری تھی اُس نے سیاست کو ایسا پراگندہ کیا کہ کرپشن اور بے حیائی کوئی جرم نہیں رہا نوازشریف اور اِن کی فیملی نے سیاست کا ایسا تعارف کرایا جس نے تعصبات اور اقربا پروری کو فراوغ دیا، سیاست کی دنیا میں انہیں پذیرائی ملی جو سیاسی مخالفین کے خلاف سازشیں کریں، جس کا فائدہ پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتور ادارے نے اُٹھایا، نوازشریف بلا کے ضدی انسان واقع ہوئے ہیں، اُن کی ضد نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں مضبوط کیا، موجودہ سیاسی حالات کا طائرانہ جائزہ لینے والے اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ موجودہ سیاسی بحران بھی نوازشریف اور اِن کے خاندان کی ضد کا نتیجہ ہے، پانامہ پیپرز کے بعد نوازشریف اپنی آمدنی کے ذرائع بتانے میں ناکام ہوئے تو اُن کی حکومت کو جانا پڑا بس وہ دن ہے اور آج کا دن انتقام کی آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے، پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر دیوالیہ ہورہا تو خواجہ آصف انکشاف کرتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدت ملازمت بڑھانے کے بدلے وفاق اور صوبہ پنجاب کی حکومت دینے کی پیشکش کی تھی، یہ وہ سرا ہے جہاں سے خرابیاں کا حالیہ سفر شروع ہوا، خواجہ آصف بہت سارے حقائق کو ابھی تک چھپا رہے ہیں یہ کہانی صرف مدت ملازمت تک محدود نہیں تھی باجوہ اور اِن کے خاندان کی دولت میں غیر معمولی اضافہ اسی دور میں ہوا جب نوازشریف افتاد کی زد میں تھے، سوال یہ ہے کہ پاکستان پر بڑھتا ہوا عالمی دباؤ کیا ہماری مقتدرہ کو اصلاح احوال کیلئے آمادہ کرسکے گا، اگر ہاں تو پاکستان عالمی سطح پر اپنا مقام دوبارہ حاصل کرلے گا۔