تحریر: محمد رضا سید
پاکستان میں ناقابل قبول الیکشن تمام ہوگئے ، اسمبلیاں آباد ہورہی ہیں، پنجاب اور سندھ اسمبلی کے ارکان نے حلف اُٹھا لیا ہے، اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد قائد ایوان کا انتخاب ہوگا، پاکستان تحریک انصاف جسے ملک کی فوجی مقتدرہ نے الیکشن لڑنے نہیں دیا، آزاد حیثیت میں اس جماعت سے ہمدردی رکھنے والےمنتخب ارکان ایوانوں میں پہنچ چکے ہیں مگر انہیں شکار کرنے والیاں اور والے پہلے سے وہاں موجود ہیں، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی کو شکار ہونے سے بچانے اور خواتین و اقلیتوں کی نشتیں حاصل کرنے کیلئے سنی اتحاد کونسل کا سہارا لیا گیا ہے، قانونی طور پر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو حالیہ الیکشن کے بعد اسمبلیوں سے باہر رکھا گیا ہے لہذا اِن اسمبلیوں کی کوئی قدر وقیمت لگانا محال ہے، جب تک کہ فارم 45 اور فارم 47 کا قضیہ ابھی باقی ہے، عدالتوں کا فیصلہ کیا آتا ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں،پاکستان میں انصاف کو جس طرح ذنح کیا جاتا ہے اُس کی مثال تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر رکھنے کے ضمن میں آنے والے فیصلے ہیں، چند دنوں میں وفاقی اور کم ازکم تین صوبوں میں حکومتیں تشکیل دیدی جائیں گی، خیبرپختونخواہ میں بھی نا چاہتے ہوئے حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا لیکن اُس کے بعد کیا ہوگا، موجودہ نام نہاد نظام کی تشکیل دینے کے بعدعوام کیلئے ریلیف کی خواہش رکھناخیال خام پکانا ہے، حالیہ الیکشن اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومتوں کےبارے میں ہماری فوجی قیادت نےمنصوبہ بندی تیار کی ہے، وہی پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کی فوجی مقتدرہ کا خیال ہے کہ وہ تشکیل دیئے جانے والے نام نہاد جمہوری نظام کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیساتھ عوام کی زندگی کو بہتر بناسکے گی تو یہ پاکستان کی فوجی مقتدرہ کی خام خیالی ہے، جب تک عوام پُر سکون نہیں ہونگے سیاسی استحکام کا قائم ہونا ناممکن ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے جیل سے اعلان کرایا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کہیں گے کہ پاکستان کو مزید قرضہ دینے سے قبل حالیہ الیکشن کا آڈٹ کرانے کا مطالبہ کرانے کا مطالبہ کریں، اس ضمن میں عمران خان کے دلائل بہت مستحکم ہیں کیونکہ حالیہ الیکشن کے بعد جن لوگوں کو حکومت دلوائی گئی ہے وہ ایک مسلمہ دھاندلی شدہ انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آئے ہیں ،یہ حکومتیں سیاسی فیصلے لینے میں ناکام رہیں گی، اِن حکومتوں کوکٹھ پتلی کی طرح نچایا جائیگا، برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں اکثریت اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو پہلے ہی کرپشن کے کیسز کا سامنا کررہے ہیں، جعلی مینڈیٹ ذریعے برسراقتدارآنے والے حکمرانوں کی منشا اپنے کیسز کو التوا میں ڈالنا ہوگا، مثلاً صدر کیلئے اتحادی حکومت معاہدے کے مطابق آصف زرداری کو نامزد کرئے گی، جنھیں پانچ سال کیلئے صدارتی استشنیٰ مل جائے گا اور پانچ سال اُن کے خلاف کرپشن کے مقدمات نہیں چل سکیں گےاور پاکستان یوں ہی اعلیٰ سطح پر کرپشن کا شکار رہے گا، پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر عمران خان نے عوام کی خاطرایک درست اور بروقت کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر یہ بتائیں گے کہ دھاندلی ذدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں عوام کی نمائندہ نہیں ہوسکتیں جب تک کہ 8 فروری کے انتخابات کا آڈٹ کراکے دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہیں کرلیا جاتا، دھاندلی کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومتیں عالمی میڈیا کے مطابق نئی بوتل میں پرانی شراب کے مترادف ہیں۔
عمران خان نے عوام کے حق کی بات عالمی ادارے تک پہنچانے کا فیصلہ کرکے کرپٹ سیاستدانوں کی دم پر پیر رکھ دیا ہے، اسی لئے شرجیل میمن جیسے افراد عمران خان کے اس فیصلے کو 24 کروڑ عوام پر حملہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں بہت کم مواقع ہیں جب کسی لیڈر نے عوام کیلئے سوچا ہو، قرضہ حکومتیں لیتی ہیں واپس عوام کو کرنا پڑتا ہے، ایسے حکمران جو کرپشن کو برا نہ سمجھتے ہوں تو قرضوں کا بڑا حصّہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے،جو بچتا ہے وہ حکمرانوں اور نوکرشاہی کی آسائشوں پر خرچ ہوتے ہیں پروٹوکال ، گاڑیاں گھوڑے، ہٹو بچو پراربوں خرچ ہوجاتے ہیں جبکہ غریب کی غربت وہیں کی وہیں رہتی ہے، پاکستان میں 8 فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات میں عوام نے جنھیں منتخب کیا وہ الیکشن کمیشن اور مقتدرہ کی پچھائی بساط پر فارم 47 میں ہار چکے ہیں لہذا آئی ایم ایف ہو یا کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ ایسی کسی حکومت کا لیا گیا قرضہ عوام کیوں دیں جو چند ہزار لوگوں کی خواہشات کی عکاسی کرتی ہو۔