عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سابق وزیراعظم عمران خان کے اس ادارے کو لکھے گئے خط پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی استحکام اور نمو کے لئے آئینی ماحول کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام انتخابی تنازعات پُر امن اور شفاف انداز میں حل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، آئی ایم ایف کے ترجمان جولی کوزیک نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے 28 فروری کو خط موصول ہوا تھا، آئی ایم ایف کا معاشی معاملات پر محدود مینڈٹ ہے اور اندرونی سیاسی معاملات پر تبصرہ نہیں کرسکتے، عمران خان کی طرف سے لکھے گئے خط میں وضاحت کیساتھ کہا گیا تھاآئی ایم ایف اور ریاست پاکستان کے مابین کسی ڈیل یا کوئی بھی ایسی سہولت جو قرضوں کی ادائیگی کے لئے مددگار ہو اس کے درمیان نہیں آنا چاہتے، آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن(ترجمان) جولی کوزیک نے صحافیوں کو بتایا فی الحال توجہ موجودہ اسٹینڈ بائی اریجمنٹ کی تکمیل ہے جوکہ اپریل 2024ء میں ختم ہوگا، ہم نئی حکومت کے ساتھ میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لئے پالیسیوں پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں، تاہم ترجمان نے نئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کیساتھ 6 ارب امریکی ڈالر کے نئے پروگرام میں جانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایاجسکی نئی نویلی حکومت آس لگائے بیٹھی ہے۔
جولی کوزیک کے بیان سے قبل 8 فروری کے انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تیار کردہ نتائج کی روشنی میں قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے شہباز حکومت کو مشورہ دیا ہےکہ وہ پاکستان میں استحکام لانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ تعاون کرنے کیساتھ اقتصادی اصلاحات کے عمل کو جاری رکھے، ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کیساتھ امریکہ اپنی دیرینہ شراکت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہ کہ باہمی مفادات کے لئے ہمیشہ ایک مضبوط، خوشحال، اور جمہوری پاکستان کو اہم سمجھتے ہیں، امریکی ترجمان نے نئے حکمرانوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ 2019ء میں (جب عمران خان حکومت میں تھے )امریکیوں نے ایک اشاریہ پانچ ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی تھی اور 2022ء میں جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مشترکہ حکومت تھی تو امریکیوں نےمحض 25 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ،یہ بات یاد دلانے کا مقصد ہے کہ نئی حکومت جوحقیقت میں پی ڈی ایم حکومت کا تسلسل ہےکو باور کرانا تھا کرپشن سے پاک حکمرانی معاشی اور سیاسی ماحول سازگار بناتی ہے، امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کے معروضات جاننے کے بعد بڑی اچھی طرح سےپاکستان کیلئے مستقبل کی امریکی پالیسیوں کابڑی حد تک اندازہ لگایا جاسکتاہے، اس میں کلام نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان پر اپنے مفادات کیلئے مرضی مسلط کرنے کیلئے آئی ایم ایف کو استعمال کرئے گا اور موقع کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا،امریکہ کو ہرگز پاکستان کے انتخابات میں ہونےوالی دھاندلی کی پروا نہیں ہے، وہ مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کو قائم رکھنے کا جوہری محرک ہے،امریکی پالیسی ساز پاکستان کوایک مرد بیمار کی طرح رکھنا چاہتے ہیں تاکہمعمولی امداد کے بدلے خطے میں واشنگٹن کے مفادات کو محفوظ بنایا جاسکے، سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کیلئے امریکہ یا آئی ایم ایف کردار ادا نہیں کرئے گی البتہ ائی ایم ایف اپنا قرضہ وصول کرنے کیلئے سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے نہیں دے گی، یہی وجہ ہے کہ نئے حکمرانوں اور فوجی مقتدرہ نے کسی سیاسی تحریک کو سختی کیساتھ کچلنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا اظہار مریم نواز ایک سے زائد مرتبہ کرچکی ہیں،آئی ایم ایف پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مخلوط حکومت کو قرضے فراہم کرئے گی اور تحریک انصاف کی جانب سے ہلکے پھلکے انداز میں لکھے گئے خط کو فائیلوں میں دبادے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کی بعد از الیکشن سیاست کا جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ ناانصافی کا شکار یہ جماعت کوئی بڑی سیاسی تحریک شروع کرنا نہیں چاہتی ہے، نئے حکمرانوں پر سیاسی دباؤ برقرار رکھنے کیلئے اُس کے پاس قومی اسمبلی اور پنجاب میں بھرپور اپوزیشن کرنے کیلئے معقول تعداد موجود ہے، الیکشن دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف نے پہلے دن سے ہی قانونی راستہ اختیار کیا ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ واضح شواہد تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اُمیدواروں کو انصاف دلانے کیلئے کافی ہیں البتہ قانونی عمل کو جلد مکمل کرنے کیلئے متحرک اقدامات ضرور کئے جائیں گے, آئی ایم ایف کے موجودہ موقف سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان کو وہ نئے قرضوں کےجال میں ضرور پھنسائے گا کیونکہ اُسے اپنا قرضہ بھی تو وصول کرنا ہے اور قرض لینا حکومت کی مجبوری ہے لہذاپاکستان کی عوام کو آئندہ مہینوں اور سالوں میں مہنگائی کا طوفان کا سامناکرتے رہنا ہوگا چاہے کراچی کا ایک شہری اپنے بچوں سمیت خود سوزی کرئے یا لاکھوں لوگ خودکشی کیلئے آمادہ ہوں، قرض دہندگان کو اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن حکومت کیلئے مشکلات بڑھتی ہیں تو حکومت کو چاہیئے کہ مقروض ملک ہونے کی علامات بھی ظاہر کرئے، ملک کی افسرشاہی سےلیکر سکیورٹی اداروں تک بچت کی ضرورت کو محسوس کریں، نگراں وزیراعلی پنجاب نے افسرشاہی کو خوش کرنے کیلئے جس طرح قیمتی گاڑیاں دیں یہ عمل اب نہیں چلنے والا ہے، پاکستان کے برطبقے کو اصلاح واحوال کی ضرورت ہے، عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائےحکومت اپنے اخراجات کم کرئے جو زیادہ تر سیاسی مصلحت کی بنا پر کئے جاتے ہیں،حکومت غذا، تعلیم اور صحت کو ترجیحی فہرست میں شامل کیا جائے فی الحال پاکستانیوں کو غذائی سلامتی کا مسئلہ درپیش ہے، حکومت روایتی سبسڈی پروگرامز کے بجائے مجموعی طور پر غذائی سکیورٹی کو یقینی بنائے کیونکہ سبسڈی پروگرام مجموعی آبادی کے 2 فیصد لوگوں تک محدود رہتا ہے اور آدھی رقم کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔
1 تبصرہ
حکومت صرف وزیروں اور نوکرشاہی کا پروٹوکول ختم کردے تو بڑی بچٹ ہوتی ہے