تحریر : محمد رضا سید
ایران کی مقتدرہ صدر مسعود پزشکیان سے خوش نہیں بلکہ کسی حد تک ناراض ہوچکی ہے، صدر پزشکیان مغرب سے اچھے تعلقات کو ایران کی ترقی اور اقتصادی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں، 2015ء میں امریکہ، چین، روس اور مغربی ملکوں کیساتھ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق معاہدہ(جے سی پی او) ہوا جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران 2018ء میں اسرائیل اور سعودی عرب کے دباؤ پر یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا حالانکہ جے سی پی او پر مکمل طور پر عملدرآمد بھی نہیں ہوسکا، صدر مسعود پزشکیان اور اُن کی ٹیم نے ایران کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل سے نمٹنے کیلئے مغرب سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی حکمت عملی کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی محور بنایا اور امریکہ کیساتھ بلواسطہ اور غیر روایتی سفارتی ذرائع سے مذاکرات شروع کئے مگر امریکہ کی مکاری اور دوغلی پالیسی نے صدر پزشکیان کی مخلصانہ خواہش کو پورا ہونے نہ دیا، پزشکیان کی معتبر ٹیم کے دو اہم افراد وزیر خزانہ و اقتصادیات عبدالناصر حمتی اور نائب صدر وسابق وزیر خارجہ جواد ظریف کے یک بعد دیگرے استعفوں نے تہران کی سیاست میں ہلچل پیدادی ہے اور اندرونی اختلافات بہت صاف دکھائی دینے لگے ہیں، ایران کی ایک اہم اور باخبر شخصیت کے بقول نوروز(ایرانی سال کا آغاز) کے بعد صدر مسعود پزشکیان کے مستعفی ہونے کی توقع کی جارہی ہے، اگر ایسا ہوا تو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کیلئے مشکلات بڑھیں گی، ایرانی مقتدرہ اور عسکری اسٹیبلشمنٹ سمجھنے لگی ہے کہ صدر ڈاکٹرمسعود پزشکیان ملک کو درپیش مسائل کا حل نہیں نکال سکتے، انہیں وہ ماحول نہیں دیا جارہا کہ وہ اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران سنگین اقتصادی مسائل حل کرسکیں جو اس وقت براہ راست مغرب کیساتھ تعلقات سے منسلک ہیں، ایران کے خلاف امریکہ اور مغربی ملکوں کی پابندیوں نے ایران کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کیا اور موجودہ معاشی حالات اس قدر ناگفتہ ہے کہ ایرانی عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں،ایران جو خطے میں امن و امان کی مثال سمجھا جاتا تھا وہاں مالی بد عنوانیاں بڑھ چکی ہیں، اخلاقی گراوٹ نے معاشرے کی سمت ہی بدل دی ہے، تاجر برادری کیلئے کارروبار کرنا مشکل ہوچکا ہے، ریال کے مقابلے میں ڈالر کی پرواز ہر گزرتے دن کیساتھ آسمان پر پہنچ رہی ہے جبکہ صدرمسعود پزشکیان کی حکومت کو نظام درست کرنے کیلئے مناسب میدان میسر نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےایک طرف اپنی سفارتی ٹیم کے ذریعے بلواسطہ ایران کو غیر رسمی مذاکرات میں مشغول کیا تو دوسری طرف ایرانی خام تیل کی برآمدات پر نئی پابندیاں عائد کردیں، اس صورتحال نےڈاکٹر مسعود پزشکیان کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کردیں اور دو دنوں میں صدر پزشکیان کی ٹیم کے دو اہم افراد کو مستعفی ہونا پڑا ،تازہ اطلاعات ہیں کہ پابندیوں کے خاتمے کیلئے امریکہ کیساتھ بلواسطہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں کیونکہ ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کیساتھ ساتھ ایران کے ترقی کرتے ہوئےمیزائل پروگرام پر بھی مذموم نظریں جمائے ہوئے ہیں، ٹرمپ انتظامیہ کے بڑھتے مطالبات نے ایران کیساتھ تعلقات کو مزید اُلجھاؤ کو شکار بنادیا ہے ، صدر ٹرمپ اسرائیل کی خوشنودی کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو مزید کمزور کیا جائے۔
صدر مسعود پزشکیاں کی حکومت شام اور لبنان میں مزاحمتی قوتوں کومضبوط کرنے کے بجائے امریکی چال کا شکار ہوئی ہے، بشار الاسد حکومت کے خلاف جولانی کی تحریر الشام کی مسلح پیش قدمی کو روکنے میں ایران ناکام رہا کیونکہ ڈاکٹر مسعود کی حکومت نظریاتی انتشار کا شکار تھی ایک طرف وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف ہیں جس کی پشت پناہی امریکہ اور بعض یورپی ممالک کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ امریکی مطالبے پر مزاحمتی قوتوں سےدوری اختیار کررہے ہیں ، مسعود پزشکیان نے دمشق حکومت کو بچانے کے بجائے پسپائی کا راستہ اختیار کرنے کو بہتر سمجھا کیونکہ بشار الاسد کی فوج فروخت ہوچکی تھی اور خریدار امریکہ نہیں ترکیہ تھا جو نیٹو اتحاد کا ایک رکن ہے، جس وقت جولائی کی مسلح تحریک پیش قدمی کرتی ہوئی دمشق کی جانب بڑھ رہی تھی تو شام سےایرانی دفاعی قوت کو واپس بلالیا گیا، واقفان حال بتاتے ہیں کہ ایرانی فوجیوں کو گرم کھانا چھوڑ کر شام سے نکلناپڑا جبکہ امریکہ اور اسرائیل کی پراکسیز سے لڑنے والوں کو شام میں بے سہارا چھوڑ دیا گیا البتہ حزب اللہ جوکہ ایک منظم مزاحمتی قوت ہے نے حالات کا پیشگی درست اندازہ لگاتے ہوئے قبل از وقت شام چھوڑنے کی تیاری کرلی تھی، اس صورتحال نے ایرانی مقتدرہ اور قدامت پسند ایرانی عوام کوغم و غصّہ مبتلا کردیا اور اصلاح پسند صدر کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا، اس دوران پزشکیان حکومت سے ایک اور سنگین غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے ایرانی مقتدرہ کو یقین دلایا کہ امریکی صدر ٹرمپ غیررسمی مذاکرات کے دوران ایران پر پابندیاں نہیں لگائیں گے اور جب ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردیں تو مسعود پزشکیان کی ٹیم کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ کیساتھ غیر رسمی بات چیت میں مشغول جواد ظریف 2015ء ایٹمی معاہدہ کی بحالی کیلئے سرتوڑ کوشش کررہے تھے مگر ٹرمپ کے مطالبات بڑھتے ہی جارہے ہیں وہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ایران کوبھی گھٹنوں پر لانا کی خواہش رکھتے ہیں مگر ایرانی ، عربوں سے مختلف ہیں، 2018ء میں جب ٹرمپ نے ایران کے میزائل پروگرام کو جے سی پی او کا حصّہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا اُس وقت وزیرخارجہ جواد ظریف نے امریکی سے بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا لیکن امریکہ نے مذموم عزائم کی بناء پر جلدبازی کی اور ایٹمی معاہدہ منسوخ کردیا جس پر امریکی ریاست کے اہلکاروں نے دستخط کئے تھے،اس ناکامی پر جواد ظریف کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑاجس کے بعد انھوں نے فروری 2019 میں ایرانی وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا مگر صدرروحانی نے اِن کا استعفیٰ قبول نہیں کیا ایران کے نائب صدر محمد جواد ظریف کا یکا یک نائب صدارت کےعہدے سے مستعفی ہونا معمول کی بات نہیں ہے ، جوتہران کی سیاسی ہلچل کو واضح کررہی ہے جلد کچھ بڑا ہوسکتا ہے، ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق صدر مسعود پزشکیان کو جواد ظریف کا استعفیٰ موصول ہوگیا تاہم اس پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، استعفیٰ دینے کے بعد جواد ظریف نے انکشاف کیا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو شدید الزامات، دھمکیوں اور توہین کا سامنا تھا، انہوں نے کہا کہ ایران کی عدلیہ کے سربراہ نے انہیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جس پر اُنھوں نے عمل کیا،یہ واضح ہے کہ ایرانی صدر کے اسٹریٹجک خارجہ پالیسی کے مشیر اور مغرب کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرنے والی ممتاز شخصیت محمد جواد ظریف نے سخت گیر مخالفین کی جانب سے شدید دباؤ کے بعد استعفیٰ دیا ہے۔
ڈاکٹر جواد ظریف 2013 سے 2021 تک حسن روحانی کی حکومت میں وزیر خارجہ رہے، انہوں نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے باعث وہ عالمی سطح پر ایک نمایاں سفارت کار سمجھے جاتے ہیں، ان کے استعفے کو ایرانی سیاست میں بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات ایران کی داخلی و خارجی پالیسی پر بھی پڑ سکتے ہیں، سابق وزیر خارجہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ اصلاح پسندوں کی حمایت یافتہ بات چیت کا چہرہ ہیں، پیر کے اوائل میں ایک آن لائن پوسٹ میں اپنے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ میری 40 سالہ سروس کے سب سے تلخ دور ہے، ظریف نے کہا کہ انہیں عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجی نے مشورہ دیا تھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں اور ملک کے ایک ہنگامہ خیز دور میں حکومت پر مزید دباؤ کو روکنے کے لئے یونیورسٹی میں تدریسی ملازمت پر واپس چلے جائیں۔
اس سے قبل ایرانی پارلیمان نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملکی کرنسی کی قدر میں مسلسل گراوٹ پر قابو پانے میں ناکامی پر وزیرخزانہ کو عہدے سے ہٹادیا گیا، بھارتی میڈیا نےایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران کے وزیر خزانہ و اقتصادیات عبدالناصر حمتی کو پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹادیا گیا، پارلیمان میں 273 میں سے 182 اراکین نے عبدالناصر حمتی کے خلاف ووٹ دیا، گذشتہ اتوار کو ایک امریکی ڈالر کی قدر 9 لاکھ 20 ہزار ریال تھی جبکہ 2024 کے وسط میں ایک ڈالر 6 لاکھ ریال کا تھا، ایرانی صدر مسعودپزشکیان نے اراکین پارلیمان سے یہ کہتے ہوئے عبدالناصر کا دفاع کیا تھا کہ معاشرے کے موجودہ معاشی مسائل کا تعلق کسی ایک فرد سے نہیں ہے اور نہ ہی ہم فردواحد کو اس کیلئے ذمے دار ٹھہراسکتے ہیں، دوسری جانب اراکین پارلیمان نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے حمتی کو ملک کے معاشی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا۔ ایک رکن پارلیمان روح اللہ متفکر آزاد نے اپنے بیان میں کہا کہ عوام مہنگائی کی نئی لہر کو برداشت نہیں کرسکتے، غیرملکی کرنسی کی قدر اور اشیا کے نرخوں میں اضافے کو کنٹرول کرنا چاہیے، ایک اور رکن پارلیمان فاطمی محمد نے کہا کہ حالات یہ ہوگئے ہیں کہ لوگ دوائیں اور طبی آلات خریدنے سے قاصر ہوگئے ہیں، خیال رہے کہ مسعود پزشکیان نے گذشتہ برس جولائی میں معیشت کی بحالی اور کچھ مغربی پابندیوں کے خاتمے کے عزم کے ساتھ صدر کا عہدہ سنبھالا تھا، مگر وہ اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں ہنوز ناکام ہیں، ایرانی ریال کی قدر گرتی چلی جارہی ہے اور افراط زر بڑھتا چلا جارہا ہے جس کا اظہار اراکین پارلیمان نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیرخزانہ و اقتصادیات کو ان کے عہدے سے ہٹا کر کیا ہے، مخالفین نے مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور ناکام صدارتی امیدوار کو ایرانی معیشت پر ایک خطرناک اثر و رسوخ کے طور پر دیکھااور ان پر بڑے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے قلیل مدتی لیکویڈیٹی کو راغب کرنے کے لئے جان بوجھ کر قومی کرنسی کو کمزور کرنے کا الزام لگایا ہے، ناصرحمتی نے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ غیر ملکی کرنسی کے نظام سے لڑ رہے ہیں جس نے کئی سالوں سے بدعنوانی کو جنم دیا ہے، ایران میں نئے سال کی تقریبات 16 دن باقی ہیں ، جس سے مارکیٹ اور خریداری کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، افراط زر ناقابل یقین حد تقریباً 35 فیصد پر پہنچ گیا ہے اور ایرانی ریال کی قدر میں کمی ہو رہی ہے، یہ صورتحال امریکہ اور اسرائیل جیسے دشمنوں کیلئے مواقف فضاء پیدا کرتی ہے تاکہ ملک بدامنی کا شکار ہو اور نظام کیلئے خطرات پیدا ہوں
With every new follow-up
Subscribe to our free e-newsletter
بدھ, مارچ 12, 2025
رجحان ساز
- جعفر ایکسپریس پر حملہ: مسلح افراد یرغمالیوں کو لیکر پہاڑوں میں روپوش ہوگئے 13 حملہ آور ہلاک
- جعفر ایکسپریس حملہ بلوچ لبریشن آرمی نے 400 مسافروں کو یرغمال بنالیا سکیورٹی ادارے متحرک
- امریکا کیلئے یورپ کے دفاع کی قیمت ادا کرنیکا کوئی مطلب نہیں، نیٹو کا مستقبل خطرات سے دوچار
- اسپین اور اٹلی میں پاکستانی شدت پسند مذہبی تنظیم تحریک لبیک کے خلاف آپریشن گیارہ افراد گرفتار
- امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ اپنے مطالبات مسلط کررہا ہے، آیت اللہ خامنہ ای
- ٹرمپ نے یو ایس ایڈ ذریعے سیاسی مداخلت اور پالیسیاں مسلط کرنے کے بجائے تجارت کو حربہ بنالیا
- مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اہم پیشرفت صدر ٹرمپ کا ایران سے رسمی مذاکرات پر آمادگی کا پیغام
ایرانی داخلی سیاست میں حالیہ استعفوں سے نظام متاثر ہوسکے گا، کیا مزید استعفوں کی بھی توقع ہے؟
ایران کے وزیر خزانہ و اقتصادیات عبدالناصر حمتی کو پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹادیا گیا، پارلیمان میں 273 میں سے 182 اراکین نے عبدالناصر حمتی کے خلاف ووٹ دیا
1 تبصرہ
Pingback: Trump Sends Letter to Iran’s leader Khamenei for Talks