پاکستان کو ہینلے اینڈ پارٹنرز کے گلوبل انویسٹمنٹ رسک اینڈ ریزیلیئنس انڈیکس میں دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار کیا گیا ہے، جو ملک میں پائیدار اقتصادی استحکام، حکمرانی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کے حوالے سے جاری چیلنجز کو ظاہر کرتا ہے، یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب صرف ایک ہفتہ قبل پاکستان کے پاسپورٹ کو ہینلے پاسپورٹ انڈیکس میں مسلسل پانچویں سال دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس میں شامل کرتے ہوئے چوتھا بدترین پاسپورٹ قرار دیا گیا تھا، ہینلے اینڈ پارٹنرز کی جانب سے اے آئی پر مبنی اینالیٹکس پلیٹ فارم الفاجیو کے اشتراک سے تیار کردہ یہ انڈیکس سرمایہ کاروں، خاندانوں اور حکومتوں کو ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے تاکہ وہ جغرافیائی تنازعات، افراطِ زر، ٹیکنالوجی میں تغیر اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے باہمی خطرات کے ماحول میں بہتر فیصلے کرسکیں، ادارے کے مطابق یہ انڈیکس رسک ایکسپوژر اور ریزیلیئنس کی صلاحیت کو ایک ہی اسکور میں جوڑ کر اُن ممالک کی نشاندہی کرتا ہے جو دولت کو محفوظ رکھنے اور طویل مدتی قدر پیدا کرنے کیلئے بہترین پوزیشن میں ہیں تاکہ سرمایہ کار، کاروبار اور خاندان غیر یقینی حالات میں بھی بہتر عالمی حکمتِ عملی بنا سکیں جبکہ حکومتوں کو اپنی مسابقت جانچنے کا پیمانہ مل سکے، دنیا بھر میں سرمایہ کاری کیلئے محفوظ ملکوں میں سوئٹزرلینڈ پہلے نمبر پر رہا، جس کی وجہ وہاں انتہائی کم خطرہ وجود رکھتا ہے، جدید اختراعات، مؤثر حکمرانی اور مضبوط سماجی اشاریے قرار دیئے گئے، انڈیکس کے نچلے حصے میں جنوبی سوڈان(226ویں)، لبنان(225ویں)، ہیٹی(224ویں)، سوڈان (223ویں) اور پاکستان(222ویں) نمبر پر ہیں، رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت ان ممالک میں نمایاں سیاسی عدم استحکام، قانونی اور ریگولیٹری خطرات ان کے بلند رسک پروفائل کی بنیادی وجوہات ہیں، کمزور طرزِ حکمرانی، محدود اختراعات اور معاشی پیچیدگی اور کم سماجی ترقی نے ان کی ریزیلیئنس کو مزید محدود کیا ہے، جو طویل عدم استحکام اور کمزور مطابقت پذیری کی عکاسی کرتا ہے، سوئٹزرلینڈ کے بعد ڈنمارک (2)، ناروے (3) اور سویڈن (5) جیسے شمالی یورپی ممالک اس بات کی مثال ہیں کہ مساوی ترقی، مضبوط ادارے اور مستقبل بین سماجی پالیسی کس طرح دنیا میں اعلیٰ درجے کی ریزیلیئنس پیدا کرتی ہے، سنگاپور چوتھے نمبر پر رہا، جو دنیا میں سب سے کم قانونی اور ریگولیٹری خطرے والا ملک قرار پایا، یہ پہلا انڈیکس ہے جو ممالک کے جغرافیائی، معاشی اور ماحولیاتی خطرات کے ساتھ ساتھ ان کی مطابقت اور بحالی کی صلاحیت کو بھی ناپتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ تر لچکدار معیشتیں چھوٹے مگر تیزی سے ڈھلنے والے ممالک میں مرکوز ہیں۔
انڈیکس کے نچلے حصے میں جنوبی سوڈان(226ویں)، لبنان(225ویں)، ہیٹی(224ویں)، سوڈان (223ویں) اور پاکستان(222ویں) نمبر پر ہیں، رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت ان ممالک میں نمایاں سیاسی عدم استحکام، قانونی اور ریگولیٹری خطرات ان کے بلند رسک پروفائل کی بنیادی وجوہات ہیں
چیئرمین ہینلے اینڈ پارٹنرز ڈاکٹر کرسچن ایچ کیلن نے کہا کہ انہیں اپنی کمپنی کی اس نئی تحقیق پر فخر ہے، جو عالمی سطح پر پیچیدہ خطرات کو سمجھنے کا ایک نیا پیمانہ فراہم کرتی ہے، ان کے مطابق یہ انڈیکس اس بات کو سمجھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے کہ حقیقی خودمختار خطرات اور ریزیلیئنس کہاں پائی جاتی ہے۔ سرمایہ کاروں، کمپنیوں اور عالمی شہریوں کے لیے یہ آنے والے برسوں میں سرمایہ کاری اور اعتماد کے درست مقامات پر غیر معمولی وضاحت فراہم کرتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اب دولت یا سیاسی نظام سے زیادہ اہمیت ریزیلیئنس کو حاصل ہے، جو مستقبل کی کامیابی کا اصل محرک بن چکا ہے، قوموں کیلئے یہ پائیدار خوشحالی کی ضمانت ہے جبکہ سرمایہ کاروں اور عالمی خاندانوں کیلئے یہ تحفظ اور طویل مدتی قدر پیدا کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، فی الحال پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام اور دوست ممالک کی جانب سے دیئے گئے زر مبادلہ ذخائر پر انحصار کر رہی ہے، جن کی بدولت اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 2023 کے آغاز میں 3 ارب ڈالر سے کم رہنے کے بعد 10 اکتوبر 2025 تک بڑھ کر 14.44 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، ترسیلاتِ زر نے بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اگرچہ ملک میں حالیہ دنوں میں کچھ معاشی استحکام کے آثار ظاہر ہوئے ہیں لیکن ابھی پائیدار ترقی کے مرحلے میں داخل ہونا باقی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری، ترسیلات میں اضافے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہونے کے باوجود پاکستانی درآمدی معیشت کیلئے شرح نمو اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے، پائیدار ترقی کیلئے پاکستان کو برآمدات بڑھانے، درآمدی متبادل پیدا کرنے اور ایکسپورٹ بیسڈ منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں اور ملک میں بڑھتی ہوئی غربت پر قابو پایا جا سکے، اگرچہ ستمبر 2025 میں کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس غیر متوقع طور پر سرپلس میں آیا ہے لیکن سیلاب اور بعد از سیلاب تعمیرِ نو کے اخراجات مستقبل میں تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دوبارہ بڑھنے اور مہنگائی کو مالی سال 2025-26 کے تخمینے سے زائد یعنی 7 فیصد سے اوپر لے جانے کے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔