سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے متعدد غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیوں نے پاکستان تحریک انصاف کو الجھن اور تعصب کا شکار بنایا ہے، مخصوص نشستوں کے معاملے پر 70 صفحات پر مشتمل فیصلہ 23 ستمبر 2024ء کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا اس کے مصنف جسٹس منصور علی شاہ ہیں جو اکتوبر میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جگہ لیں گے، سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیا تھا، اکثریتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان واپس لینے سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا، عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا، فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان واپس لینے سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی حکم میں کہا کہ جمہوری عمل میں عوام کا اعتماد برقرار رکھنے کے لئے انتخابی سالمیت کو یقینی بنانے اور عوام کی خواہشات کو برقرار رکھنے میں عدلیہ کا کردار ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن کے متعدد غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیوں نے پی ٹی آئی، اس کے امیدواروں اور پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے رائے دہندگان کیلئے الجھن اور تعصب پیدا کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کو ریٹرننگ افسران نے انتخابی امیدواروں کی فہرست (فارم 33) میں غلط طور پر آزاد امیدواروں کے طور پر دکھایا اور کمیشن کی جانب سے سیکشن 98 کے نوٹیفکیشن میں آزاد امیدواروں کے طور پر غلط طور پر مطلع کیا گیا، فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایک ضامن ادارے اور غیر جانبدار اسٹیورڈ کی حیثیت سے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ انتخابی نظام پر عوام کا اعتماد برقرار رکھا جا سکے، یہ منتخب نمائندوں کی قانونی حیثیت اور سیاسی نظام کے استحکام کے لئے ضروری ہے، کمیشن کو جمہوری اصولوں اور انتخابی عمل کی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انتخابات صحیح معنوں میں عوام کی خواہشات کی عکاسی کرتے ہیں اور اس طرح ملک کے جمہوری تانے بانے کو محفوظ رکھتے ہیں، سپریم کورٹ نے کہا کہ بدقسمتی سے موجودہ حالات سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن 2024 کے عام انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔